ہمارے پرکھوں کو کیا خبر تھی! کہ ان کی نسلیں اداس ہونگی ادھیڑ عمری میں مرنے والوں کو کیا پتہ تھا! کہ ان کے لوگوں کی زندگی میں، جوان عمری ناپید ہوگی سمے کو بہنے سے کام ہوگا بڑھاپا محو کلام ہوگا ہر ایک چہرے میں راز ہوگا حواس خمسہ کی بدحواسی، بس ایک وحشت کا ساز ہوگا زمیں کے اندر آرام گاہوں میں، سونے والے مصوروں کو کہاں خبر تھی! کہ بعد ان کے تمام منظر، سبھی تصور ادھورے ہونگے دعائیں عمروں کی دینے والوں کو کیا خبر تھی دراز عمری عذاب ہوگی ﻧﺎﺻﺮ
سنا ہے اس جہاں میں زندگی کی قحط سالی ہے یہاں دو چار دن جینے کا اکثر ذکر ہوتا ہے یہاں ہر چیز فانی ہے، سبھی کو موت آنی ہے یہاں پر پیار کیا کرنا، یہاں اقرار کیا کرنا؟ مگر! کچھ یوں بھی سنتا ہوں، کہ ایسا اک جہاں ہوگا کہ جس میں موت آنے کا، کوئی دھڑکا نہیں ہوگا حیات جاویداں کے سب، وہاں اسباب رکھے ہیں.
”دعوت“ اے میری پرستشوں کے حقدار!! آ، میں تیرے حسن کو نکھاروں چہرے سے اُڑا کے گردِ ایام آ، میں تیری آرتی اُتاروں تُو میری زباں بھی ، آسماں بھی میں تجھے کہاں کہاں پکاروں ؟؟ ”احمد ندیم قاسمی“
وفا کے باب میں الزام عاشقی نہ لیا کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا خوشا وہ لوگ کہ محروم التفات رہے ترے کرم کو بہ انداز سادگی نہ لیا تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا فراز ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی کہ رات بھی تھی اندھیری، چراغ بھی نہ لیا