تیری باتیں تھیں خواب کے مانند خواب سارے بکھر گئے ہیں اب دل کی دنیا تھی چاندنی جیسی بادلوں میں اتر گئی ہے اب تیرا وعدہ تھا پھول کے مانند پھول خوشبو بکھیرتے ہی مرجھا گئے تیری چاہت تھی نرم سی بارش قطرہ قطرہ بکھر گئی ہے اب تیری آنکھیں تھیں جھیل کے مانند گہرائی میں ڈوبتا گیا میں تیرا سایہ تھا روشنی جیسا دھوپ میں کھو گیا ہے اب
کچھ لوگ گلاب کی طرح ہوتے ہیں بالکل ترو تازہ ۔ ہر پل مسکراتے، خوشیاں بکھیرتے مگر پھر ہمارے سخت لہجے، طنز یا کڑوے الفاظ ان کی مسکراہٹ چھین لیتے ہیں۔ وہ ہمارے الفاظ اور لہجے کی گرمی نہیں سہہ پاتے اور گلاب کے پھول کی طرح مرجھا جاتے ہیں۔ رنگ ماند پڑ جاتے ہیں، تازگی ختم ہوجاتی ہے۔ مگر پھر بھی ان کا احساس، ان کی باتیں ہمارے ارد گرد ہمیشہ رہتی ہیں۔ گلاب کی خوشبو کی طرح۔ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیجیے۔ کہیں کوئی تازہ گلاب مرجھا نہ جائے۔ کسی کی مسکراہٹ آپ کی ایک جھڑکی، تلخ لہجے کی نظر نہ ہوجائے۔ کیونکہ کھلنے میں وقت لگتا ہے مگر مرجھانے کے لیے چند پل بھی کافی ہوتے ہیں۔ ! خوشیاں بانٹیں اور مسکراہٹیں تقسیم کریں آپ کی دی ہوئی ایک مسکراہٹ کسی کے لئے زندگی کی امید بن سکتی ہے۔
آپ کے گھر سے نکلی بات ایک دن أپ کے گھر واپس ضرور آتی ھے وہ اپنا اصل پتہ بھولتی نہیں ھے پھر خواہ آپ کے گھر کا در بند ہو کھلا یا مقفل اسے اندر داخل ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا
تم نے میری نظمیں چرا کر اپنی دوست کو ایسے کیوں سنائیں جیسے وہ تمہاری ہوں، اے ڈاکیے؟ جناب، نظمیں ان کی ملکیت نہیں ہوتیں جو انہیں لکھتے ہیں، بلکہ ان کی ہوتی ہیں جو انہیں ضرورت کے وقت پاتے ہیں۔ مجھے ان نظموں کی ضرورت تھی
یوں بھی ہو سکتا ہے کسی پرندے کو مچھلی سے محبت ہو جائے مگر مصیبت یہ ہے کہ جا کر رہیں تو کہاں رہیں؟ کچھ ایسا ہی ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو ایسی چیزوں کی چاہت کر بیٹھتے ہیں،جو اُن کیلئے بنی ہی نہیں ہوتیں،پھر آخر میں ایک کو اڑ جانا ہوتا ہے دوسرے کو غموں کے سمندر میں غرق ہونا پڑتا ہے
بیگم کہتی آج سحری میں مولی والے پراٹھے بنانے کا من ہے۔ میں نے کہا نہیں یار دفتر جانا ہے کولیگز کو کاہے کی سزا دوں۔ پھر بولی گوبھی والے بنا لوں؟ میں نے کہا آفرین، یعنی تم چاہ رہی کہ آج آفس میں کوئی اپنی کرسی پر نہ ٹک سکے ؟۔ بولی “ میں تو اس لیے کہہ رہی تھی کہ کل سے ویک اینڈ ہے، ہفتہ اتوار آپ گھر ہوتے ہیں۔ان دنوں تو ہرگز نہیں بنا سکتی”۔ میں نے کہا کہ آخر تم نے یہ بنانے ہی کیوں ہیں ؟۔ بولی کہ میں چاہ رہی آپ کولیگز کی نظروں میں گر جائیں۔ میں نے حیران ہوتے پوچھا کہ آخر کیوں ؟۔ بولی “ جب سے آپ کی فارنر کولیگ ایملی آئی ہے میں نوٹ کر رہی ہوں کہ آپ زیادہ ہی تیار ہو کے آفس جانے لگے ہیں۔ پہلے تو اتنا نہیں ہوتے تھے آپ۔” دسو یار، ایسے منصوبے تو دشمن بھی نہیں بناتا ۔
میں چاہتا ہوں کوئی مجھ سے بات کرتا رہے میں چاہتا ہوں اندر کی خامشی نکلے۔ میں چاہتا ہوں مجھے کوئی درد دان کرے شدید اتنا کہ آنسو ہنسی خوشی نکلیں میں چاہتا ہوں تیرے عشق میں عجیییب ہو کچھ میں چاہتا ہوں چراغوں سے تیرگی نکلے میں چاہتا ہوں تجھے مجھ سے عشق ہو جائے میں چاہتا ہوں صحرا سے جل پری نکلے میں چاہتا ہوں پرندے رہا کئیے جائیں میں چاہتا ہوں تیرے ہونٹ سے ہنسی نکلے
جب مِرے پاس تھے تم میں نے کئی بار یہ سوچا، تم سے آنکھ میں بِکھرے ھُوئے خواب کا احوال کہوں کیسے کٹتے ھیں مِرے روز و مہ و سال کہوں فیصلے اور عمل میں لیکن ایک دیوار جو صدیوں سے کھڑی ھے، میں بھی اُس میں روزن ھی بنانے کی تگ و دو میں رھا سعیِ بیکارِ تمنا کی قلمرو میں رھا اب جو تم بچھڑے ھو تو دِن رات مِرے دِل میں عجب وھم سا رھتا ھے کہ جیسے میں نے، یونہی اِک خوف کو دیوار بنا رکھا تھا دِل کو اِک نقطہء پرکار بنا رکھا تھا سوچتا ھوں کہ اگر میں نے کبھی تم کو اُس خواب کا احوال سُنایا ھوتا، تو بھلا کیا ھوتا! حد سے حد تم مِری باتوں سے خفا ھو جاتے اِک تمسخر کی ھنسی ھنس کے جُدا ھو جاتے
ہم نے پھول بھیجنے کے موسم میں ایک دوسرے کو ہجر بھیجا۔ تم میرے ہونٹوں سے کسی ان چاہے اظہار کی طرح بچھڑ گئے۔ اور میں تمھاری آنکھوں سے آنسووں کی طرح بے دخل ہو گیا۔ کسی میز پر آج بھی دو موم بتیاں بڑی شدت سے جل رہی ہوں گی۔ مگر ہم روشنی کا مقدمہ ہار گئے تھے۔ دیکھو ہمارے اندر کتنی تاریکیاں بھری ہوئی ہیں۔ کیا تمھیں کوئی راستہ سجھائی دیتا ہے؟؟ میں بھول چکا ہوں دروازہ کس طرف تھا ؟؟
وہ زمانہ تھاجب محبوب کوچوٹ لگتی تولڑکی اپنا دوپٹہ پھاڑکرپٹی کردیتی تھی اب ایسانہیں کیونکہ گل احمد ، ثنا سفیناز وغیرہ کے پانچ سے پندرہ ہزار لان کے سوٹ کو پھاڑنے کیلئے دل گردہ چاہیے محبوب تو ایک ڈھونڈے ہزار مل جاتے ہیں لیکن فیورٹ کلرڈیزائن کے سوٹ بار بار نہیں ملتے
میری محبوبہ نے پوچھا میرے اور آسمان کے درمیان کیا فرق ہے ؟ ائے میری محبت تمہارے اور آسمان کے درمیان فرق یہ ہے کہ جب تم ہنستی ہو تو میں آسمان کو بھول جاتا ہوں۔۔۔۔
لفظوں کی طرح مجھ سے کتابوں میں ملا کر دنیا کا تجھے ڈر ہے تو خوابوں میں ملا کر اور پھولوں سے تو خوشبو کا تعلق ہے ضروری تو مجھ سے مہک بن کے گلابوں میں ملا کر