جانے کس سمت سے آتی ہے اچانک تیری یاد
اور پھر کچھ بھی سمٹنے میں نہیں آتا ہے
ہزار باندھ لئے آ گہی نے حصار
تیرا خیال نہ جانے کہاں سے آتاہے
وہ پرندہ جسے پرواز سے فرصت ہی نہ تھی
اب
جو تنہا ہے تو دیوار پہ آ بیٹھا ہے
ذہن میں سوچوں کا ہجوم لگا ہوا ہے
اور کہنے کو زبان میں فقط ایک لفظ بھی نہیں
نہ چاہنے پہ بھی تجھ کو خدا سے مانگ لیا
یہ حال ہے دلِ بے مدّعا کے ہوتے ہوئے
ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو
جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر
اچھا تو اب میں سمجھا
پھول خوشبو یہاں سے چراتے ہیں۔
اُسکی آنکھوں میں دیکھا تو معلوم ہوا
ہمارا ———ایک گھر اور بھی ہے
میں پھولوں کے انبار کو پسند نہیں کرتا کیوں کہ گلدستہ میں پتیوں کے مُڑ جانے کا احتمال ہوتا ہے.. میں ستاروں کے جمگھٹ کو پسند نہیں کرتا اس طرح نگاہیں بھٹک جاتی ہیں.. میں انسانوں کے ہجوم کو پسند نہیں کرتا کیوں کہ ہجوم کا تصور صرف قیامت سے متعلق ہے.. مجھے ایک پھول.. ایک ستارہ.. ایک انسان چاہیئے
آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیں
ڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں اور رسوئیوں میں بٹے ہوئے
لیکن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے
آبائی گھروں میں
گِھسی ہوئی سرخ اینٹوں کے فرش
اور چُونا گچ نَم خوردہ دیواریں
بے تحاشا بڑھی ہوئی بیلیں
چھتوں پر اگی ہوئی لمبی گھاس
اور املی اور املتاس کے درخت
ایک دائمی سوگواریت لیے ہوئے
ایک ہی جانب خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں
آبائی گھروں کے اندر چیزیں بھی ایک سی ہوتی ہیں
پڑچھتیوں پر پیتل اور تانبے کے برتن
گرد جھاڑنے، قلعی کرنے والے ہاتھوں کا انتظار کرتے ہیں
چنیوٹ کا فرنیچر
اور گجرات کی پیالیاں اور چینکیں
خالی پڑی رہتی ہیں
کھونٹیوں پر لٹکے ہوئے کپڑے اور برساتیاں
اترنے کی منتظر رہتی ہیں
اور چہل قدمی کی چھڑیاں اور کھونڈیاں
سہارا لینے والے ہاتھوں کو ڈھونڈتی ہیں
فریم کیے ہوئے شجرے،
بلیک اینڈ وائٹ اور سیپیا تصویریں
اور طاقوں میں رکھی ہوئی مقدس کتابیں
اور کامریڈی دور کا مارکسی ادب
سب کچھ اپنی اپنی جگہ پڑا ہوتا ہے
آبائی گھروں کے مکین بھی ایک سے ہوتے ہیں
بیرونی دروازوں پر نظریں جمائے، آخری نمبر کا چشمہ لگائے
بینائی سے تقریباْ محروم مائیں
اور رعشہ زدہ ہاتھوں والے باپ
اور اپنے تئیں کسی عظیم مقصد کے لیے جان دینے والوں کی بیوائیں
جو کبھی جوان اور پُر جوش رہی ہوں گی
آبائی گھروں میں لوگ نہیں ساعتیں اور صدیاں بیمار ہوتی ہیں
زمانے کھانستے ہیں
آبائی گھر لَوٹ آنے کے وعدوں پر
باوفا دیہاتی محبوبہ کی طرح سدا اعتبار کرتے ہیں
اور کبھی واپس نہ آنے والوں کے لیے
دل اور دروازے کُھلے رکھتے ہیں
شاعروں کے لیے
آبائی گلیوں کی دوپہروں
اور پچھواڑے کے باغوں سے بڑا رومانس کیا ہو سکتا ہے
جہاں تتلیاں پروں کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتیں
اور پھولوں اور پتوں پر کریش لینڈنگ کرتی ہیں
اور دھوپ اور بارش کے بغیر
قوسِ قزح جیسی ہنسی بکھرتی ہے
اور نسائم جیسی لڑکیاں سات رنگوں کی گنتی بھول جاتی ہیں
آبائی گھروں میں
وقت بوڑھا نہیں ہوتا
دراصل ہم بچے نہیں رہتے
اور کھلونوں کے بجائے اصلی کاریں چلانے لگتے ہیں
اور کبھی کبھی اصلی گنیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔
آبائی گھروں کو جانے والے راستے بھی ایک سے ہوتے ہیں
سنسان اور گرد آلود
مسافروں سے تہی
جن پر بگولے اڑتے ہیں
یا میت اٹھائے کبھی کبھی کوئی ایمبولینس گزرتی ہے
پھلاہی اور کیکروں سے ڈھکے آبائی قبرستان
تھوڑی دیر کے لیے آباد ہوتے ہیں
اور پھر دعاؤں اور باتوں کی بھن بھن میں
منظر تتر بتر ہو جاتا ہے
یہاں تک کہ موسم سے اکتائے ہوئے
بادل بھی کسی پہاڑی قصبے کی طرف چلے جاتے ہیں
آبائی راستوں کے دکھ نظمائے نہیں جا سکتے
انہیں یاد کرتے ہوئے رویا بھی نہیں جا سکتا
یہ صرف کسی اپنے جیسے کے ساتھ شیئر کیے جا سکتے ہیں
عمریں گزر جاتی ہیں
شہروں میں اور ملکوں میں
لکڑی کے صندوق اور پیٹیاں ہماری جان نہیں چھوڑتیں
گھروں میں کوئی جگہ نہ ہو
تو دلوں اور ذہنوں کے کباڑ خانوں میں رکھی رہتی ہیں
کبھی نہ کُھلنے کے لیے
اور پھر ایک دن ہم خود بند ہو جاتے ہیں
زمین پر آخری دن آنے سے پہلے
ہمارے دن پورے ہو جاتے ہیں
-تُمہیں خَبر ہے"
تمہاری بے اعتنائی سے؟
وہ گُل بھی زَرد ہیں
جو رونقِ بہار تھے
اس کو دیکھا تو مجھ کو یہ علم ہوا
آنکھوں سے بھی قتل و غارت ہوتی ہے
کاش اس کو نہ ہو عدمؔ معلوم
وہ ہمیں زندگی سے پیارا ہے
تم سے کیوں دل کے مسائل پہ کوئی بات کرے
تم تَو ہر بات پہ کہتے ہو کوئی بات نہیں
اونٹ کو اللہ نے صحرا کیلئے بنایا ہے. اس ریتیلے دشت میں نہ تو اس کے پاوں ریت میں دھنستے ہیں. نہ اڑتی ریت اس کی آنکھوں کی دوہری پلکوں کی جھالر سے اسے پریشان کرتی ہے. اس کے ہونٹ اور منہ صحرائی جھاڑ جھنکار کے کانٹوں سے زخمی نہیں ہوتے اور پانی یہ طویل وقت کیلئے اپنے جسم میں ہی ذخیرہ کر سکتا ہے.
اونٹ کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا صدیاں قبل بدو لوگوں نے کیسے اسے سدھا لیا. کیونکہ آج بھی صحرا میں آپ اونٹ کو پکڑ نہیں سکتے. البتہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اونٹ کا منہ ہر وقت چل رہا ہوتا ہے تو یہ اس رسی کو ہی چبا لیتا ہے جس سے ان کو باندھ کر رکھا جاتا.بدو یہ جانتے تھے.
بدو تب رسی کے آخر سرے پر نمک لگا لیتے. اونٹ جب اس تیز نمکین رسی کو منہ میں ڈالتا تو اس کے تلخ ذائقہ پر فوراً منہ سے نکال لیتا. اونٹ آزادی کی سوچ ہی چھوڑ دیتا. صحرا میں بدو اس پر وزن لاد کر قافلوں میں چلتے ان کی گردن کی گھنٹیاں بج رہی ہوتی آگے پیچھے بدو گیت گاتے اور اونٹ اسے ہی زندگی مان لیتا.
عام انسان بھی نہ تو آنسو پسند کرتا ہے نہ ہی پسینہ چونکہ یہ دونوں بھی نمکین ہیں. ہمیں نمک "حسب ذائقہ" چاہئے ہے. زندگی جہاں کچھ تلخ ہوتی ہے، ہمیں رولاتی یا ہمارا پسینہ نکالنے لگتی ہے ہم بھی اونٹ کی طرح اس سے جان چڑھانا چاہتے ہیں. ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور وقت ہمارے گلے میں بھی پٹہ ڈال کر اس قافلے میں شامل کر دیتا ہے جو زندگی نہیں جیتے بلکہ زندگی ان پر بیت جاتی ہے.
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain