ھاۓ وہ دھیرے دھیرے مر رھا ھے مجھ پر
کوئی روکو اُسے کہ وہ جان سے جائے گا
"میں نے درخت سے شفقت سیکھی"
میں نے اسے پتھر مارا، اس نے مجھ پہ پھل اور پھول برسائے وہ شرمندگی میرے لئے سبق بن گئی۔!!!
"وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے
سوکھے پھول
اور مہکے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے گِرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے۔
ان کا کیا ہوگا ؟؟
وہ شاید۔۔۔ اب نہیں ہوں گے"۔
جو لوگ جلدی مر جاتے ہیں
وہ اپنی عمر یقینا پوری کرتے ہوں گے
کسی دور کی کہکشاں میں
جہاں ہر ستارے کے اپنے ڈھیروں چاند ہوتے ہیں
جن کے عکس سے ہر ایک ستارہ ہر روز منور ہوتا ہے
جہاں چاندنی کسی تپتے جلتے سورج کی محتاج نہیں ہو تی
اور نا ہی کسی گرہن کا خوف آڑے آتا ہے
ٹھنڈی میٹھی چھاؤں یقینا ماں کی گودجیسی ہوتی ہو گی ؟
ورنہ جلدی جانے والوں کو سکوں کہاں ملتا ہو گا
ہر اگتے چاند کو ایسے جلد بازوں نے نام دیے ہوں گے
نام ، جو موت کی جلدی میں پیچھے رہ گۓ
پر بازگشت چپکے سے کفن میں آ کر سو جاتی ہے
کسی چاند کا نام پہلی گود ہو گا
کسی کو ناز سے پہلا پیار پکارا جاتا ہو گا
کوئی چاند روح اور جسم کی جیت ہو گا
اور کسی چاند کا نام حسرت ہوگا
یہ جلدی جانے والے لوگ ہر روز چاندنی میں نہاتے ہوں گے
اور حسرتوں کے چاند کو ہر روز گھٹتااور بڑھتا دیکھ کر ان ناموں کو دہراتے ہوں گے
روزروز کے اس کھیل میں نا چاند سوتا ہے
نا حسرتیں کم ہوتی ہیں
اور نا واپسی کے لئے کوئی سیڑھی ملتی ہے
ستارے اپنے اپنے مداروں میں گردش کے پابند ہیں
اور ان کے مکین اس گردش کے رکھوالے
کبھی نا رکنے والی اس آنکھ مچولی کو کوئی ایسا نہیں ہے جو روک دے
مسیحا تو صرف سانس لیتی روحوں پر نازل ہوتے ہیں
خاک سے خاک کے سفر میں جلدی کرنے والے بس تماشائی ہیں
پورے وجود سے بنی ادھوری روحیں ہیں
جن کی کوئی کہانی نہیں ہوتی
بس وہ ایک ایسے اداکار کی ماند ذہن میں نقش رہ جاتے ہیں
جن کو اپنی لائنیں پوری ہونے سے پہلے ہی سٹیج سے اتار دیا جاتا ہے
وہ کیا کہنا چاہتے تھے ؟
ان کے ہونے سے کیا کہانی بدل جاتی ؟
بس ان سوالوں کی تشنگی یاداشت میں ان کرداروں کو امر کر دیتی ہے
یہ جلدی جانے والے بس یہیں جیت جاتے ہیں
ادھوری کہانیوں کی پوٹلی اٹھائے ،، اپنے ستاروں کی جانب گامزن
تشنگی کا آسیب پیچھے رہ جانے والوں کو تحفے میں دے جاتے ہیں
تحفہ بھی ایسا جو کوئی نہیں چاہتا
لیکن چاہنے سے کبھی کچھ نہیں بدلتا
نا جلدی جانے والے رکتے ہیں
نا پیچھے رہ جانے والے روک پاتے ہیں
یہ کھیل تمہاری اور میری کہانی سے صدیوں پرانا ہے
میں بس اتنا چاہتی ہوں
اس سفر میں ستارے کھوجنے پہلے میں جاؤں
تو میری پوٹلی میں ادھوری کہانیوں کی رنگ بِرنگ کترنیں نا ہوں
نا الجھے خوابوں کے دھاگے لپٹے پڑے ہوں
مجھے کسی چاند کا نام حسرت نا رکھنا پڑے
اور تحفے میں تشنگی کا کوئی بھوت تمہارے گھر بسیرا نا کرے
خط میں میرے ہی خط کے ٹُکڑے تھے۔۔۔!!
اور میں سمجھا!!!
جواب آیا ہے۔۔۔۔۔
جب اُس نے مُجھ سے کہا مُجھے تُم سے مُحبت ہے تو میں چَھت سے کُود کر فوراً کمرے میں آ گیا
اُس رات میں نے پہلی بار موبائل کے فرنٹ کیمرہ کو بطور آئینہ استعمال کرتے ہُوئے خُود کا بغور مطالعہ کِیا
گھنٹوں خُود کو تسلیاں دینے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا کہ نہیں
یہ سب دھوکا ہے، جُھوٹ ہے، فریب ہے
خوش نصیبی کسی شے کا نام نہیں‘ سماجی مرتبے کا نام نہیں ‘ بینک بیلینس کا نام نہیں ‘ بڑے بڑے مکانوں کا نام نہیں …. خوش نصیبی صرف اپنے نصیب پر خوش رہنے کا نام ہے ۔
کوشش ترک کرنے کا مقصد نہیں ۔ کسی خوش نصیب نے آج تک کوشش ترک نہیں کی، لیکن یہ کوشش بامقصد ہونی چاہئے۔ایسی کوشش کہ زندگی بھی آسان ہو اور موت بھی آسان ہو۔ یہ دنیا بھی اچھی اور وہ دنیا بھی بہتر۔
ایسی زندگی کہ ہم بھی راضی رہیں اور ہماری زندگی پر خدا بھی راضی ہو۔…. خوش نصیبی ایک متوازن زندگی کا نام ہے …. خوش نصیب انسان حق کے قریب رہتا ہے ، وہ ہوس اور حسرت سے آزاد ہے ، وہ فنا کے دیس میں بقا کا مسافر ہے۔
واصف علی واصفؒ
شادی کی تقریب میں نہایت مع٘زز لوگ مدعو تھے
فلسفہ، سیاسیات۔ طبعیات و مابعد الطبیعیات اور معیشت پہ باتیں ہو رہی تھی کہ روٹی کُھل گئی۔۔۔
اور پھر۔۔سب کی اصلیت کھل گئی۔۔
زندگی روز مجھ سے پوچھتی ہے
آخری شعر ہوگیا ، تو چلیں؟
شب بخیر۔۔۔
دو وجوہات پہ اس دل کی آسامی نہ ملی
ایک درخواست گزار اتنے دوسرا سارے لائق
بارش اور اذانوں کا
اداسی سے
خاصا پرانا اور گہرا تعلق ھے
جو لوگ آدھے ادھورے اداس رہتے ہیں
انہیں سکھاؤں گا کیسے اداس رہتے ہیں
اداس تم ہو وہاں پر اداس ہم ہیں یہاں
کبھی ملو تو اکٹھے اداس رہتے ہیں
بنائے رکھتے ہیں ہر حال میں توازن ہم
کہ خوش بھی اتنے تھے جتنے اداس رہتے ہیں
اداسی تیرے ملازم نئے ہیں ہم لیکن
پرانے والوں سے اچھے اداس رہتے ہیں
شریک ہوتے ہیں کم محفل اداسی میں
زیادہ تر تو اکیلے اداس رہتے ہیں
تمہارے سامنے جلتا نہیں ہے ان کا چراغ
کہ چاند ہو تو ستارے اداس رہتے ہیں
کسے دکھاؤ گے اپنی اداسیاں شرجیلؔ
یہاں تو تم سے بھی اچھے اداس رہتے ہیں
عام ناول
لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور دونوں ہنسی خوشی اپنی منزل کی جانب چل دیئے۔
عمیرہ احمد کے ناول:
لڑکے نے فجر کے وضو میں دھوئے ہوئے ہاتھوں سے ماہِ مبارک میں چھٹکتی چاندنی جیسی دودھیا رنگت کی حامل لڑکی کا سیاہ دستانوں میں ملبوس گورا اجلا ہاتھ تھاما اور دونوں بآوازِ بلند الحمد للہ کہتے ہوئے ننگے پیر ساحلِ سمندر کی پاک ریت پر دھیمے قدموں سے چلنے لگے۔
مجھ جیسوں کا یہاں، وہاں کوئی دوست نہیں ہے ہمارا کوئی محبوب نہیں ہوتا، ہم صرف لوگوں سے ملتے رہتے ہیں جیسے کچی لپائی دیوار سے جھڑ جاتی ہے اور ایسے ہی ہم لوگوں کے دلوں سے اتر جاتے ہیں
مجھے ایک تسلی بھرا خط لکھو
اس خط میں کوئی ایسا پیغام
زندگی کے کچھ رنگ
، دلفریب مناظر __ اداسی مٹانے کے گُر اپنے انداز سے میرا نام ___ لکھو کچھ ایسا کہ میں سبھی مسائل بھول کر تمہیں یاد رکھوں۔
"هنالك قلوب خُلقت لتسعدنا وتُخبرنا أن الحياةَ ما زالتْ جميلة."
کچھ دل ہماری خوش بختی کے لیے بنائے گئے ہیں۔۔جو ہمیں بھروسہ دلاتے ہے کہ زندگی اب بھی خوبصورت ہے
شب بخیر ۔۔۔
عورتوں کی آدھی عمر تو اپنی عمر کم کرنے میں گزرجاتی ہے۔ ایک ملازمت کے انٹرویو کے دوران انٹرویو لینے والے نے پوچھا، ’’محترمہ! آپ کی عمر؟‘‘ جواب ملا، ’’ 19 سال کچھ مہینے‘‘ پوچھا، ’’کتنے مہینے؟‘‘ جواب ملا۔ ’’چھیانوے مہینے!‘‘
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain