Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

جانے کس سمت سے آتی ہے اچانک تیری یاد
اور پھر کچھ بھی سمٹنے میں نہیں آتا ہے

Offline
 

ہزار باندھ لئے آ گہی نے حصار
تیرا خیال نہ جانے کہاں سے آتاہے

Offline
 

وہ پرندہ جسے پرواز سے فرصت ہی نہ تھی
اب
جو تنہا ہے تو دیوار پہ آ بیٹھا ہے

Offline
 

ذہن میں سوچوں کا ہجوم لگا ہوا ہے
اور کہنے کو زبان میں فقط ایک لفظ بھی نہیں

Offline
 

نہ چاہنے پہ بھی تجھ کو خدا سے مانگ لیا
یہ حال ہے دلِ بے مدّعا کے ہوتے ہوئے

Offline
 

ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو
جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر

Offline
 

اچھا تو اب میں سمجھا
پھول خوشبو یہاں سے چراتے ہیں۔

Offline
 

اُسکی آنکھوں میں دیکھا تو معلوم ہوا
ہمارا ———ایک گھر اور بھی ہے

Offline
 

میں پھولوں کے انبار کو پسند نہیں کرتا کیوں کہ گلدستہ میں پتیوں کے مُڑ جانے کا احتمال ہوتا ہے.. میں ستاروں کے جمگھٹ کو پسند نہیں کرتا اس طرح نگاہیں بھٹک جاتی ہیں.. میں انسانوں کے ہجوم کو پسند نہیں کرتا کیوں کہ ہجوم کا تصور صرف قیامت سے متعلق ہے.. مجھے ایک پھول.. ایک ستارہ.. ایک انسان چاہیئے

Offline
 

آبائی گھر ایک سے ہوتے ہیں
ڈیوڑھیوں، دالانوں، برآمدوں، کمروں اور رسوئیوں میں بٹے ہوئے
لیکن ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے
آبائی گھروں میں
گِھسی ہوئی سرخ اینٹوں کے فرش
اور چُونا گچ نَم خوردہ دیواریں
بے تحاشا بڑھی ہوئی بیلیں
چھتوں پر اگی ہوئی لمبی گھاس
اور املی اور املتاس کے درخت
ایک دائمی سوگواریت لیے ہوئے
ایک ہی جانب خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں
آبائی گھروں کے اندر چیزیں بھی ایک سی ہوتی ہیں
پڑچھتیوں پر پیتل اور تانبے کے برتن
گرد جھاڑنے، قلعی کرنے والے ہاتھوں کا انتظار کرتے ہیں
چنیوٹ کا فرنیچر
اور گجرات کی پیالیاں اور چینکیں

Offline
 

خالی پڑی رہتی ہیں
کھونٹیوں پر لٹکے ہوئے کپڑے اور برساتیاں
اترنے کی منتظر رہتی ہیں
اور چہل قدمی کی چھڑیاں اور کھونڈیاں
سہارا لینے والے ہاتھوں کو ڈھونڈتی ہیں
فریم کیے ہوئے شجرے،
بلیک اینڈ وائٹ اور سیپیا تصویریں
اور طاقوں میں رکھی ہوئی مقدس کتابیں
اور کامریڈی دور کا مارکسی ادب
سب کچھ اپنی اپنی جگہ پڑا ہوتا ہے
آبائی گھروں کے مکین بھی ایک سے ہوتے ہیں
بیرونی دروازوں پر نظریں جمائے، آخری نمبر کا چشمہ لگائے
بینائی سے تقریباْ محروم مائیں
اور رعشہ زدہ ہاتھوں والے باپ
اور اپنے تئیں کسی عظیم مقصد کے لیے جان دینے والوں کی بیوائیں
جو کبھی جوان اور پُر جوش رہی ہوں گی
آبائی گھروں میں لوگ نہیں ساعتیں اور صدیاں بیمار ہوتی ہیں

Offline
 

زمانے کھانستے ہیں
آبائی گھر لَوٹ آنے کے وعدوں پر
باوفا دیہاتی محبوبہ کی طرح سدا اعتبار کرتے ہیں
اور کبھی واپس نہ آنے والوں کے لیے
دل اور دروازے کُھلے رکھتے ہیں
شاعروں کے لیے
آبائی گلیوں کی دوپہروں
اور پچھواڑے کے باغوں سے بڑا رومانس کیا ہو سکتا ہے
جہاں تتلیاں پروں کا توازن برقرار نہیں رکھ سکتیں
اور پھولوں اور پتوں پر کریش لینڈنگ کرتی ہیں
اور دھوپ اور بارش کے بغیر
قوسِ قزح جیسی ہنسی بکھرتی ہے
اور نسائم جیسی لڑکیاں سات رنگوں کی گنتی بھول جاتی ہیں
آبائی گھروں میں
وقت بوڑھا نہیں ہوتا

Offline
 

دراصل ہم بچے نہیں رہتے
اور کھلونوں کے بجائے اصلی کاریں چلانے لگتے ہیں
اور کبھی کبھی اصلی گنیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔
آبائی گھروں کو جانے والے راستے بھی ایک سے ہوتے ہیں
سنسان اور گرد آلود
مسافروں سے تہی
جن پر بگولے اڑتے ہیں
یا میت اٹھائے کبھی کبھی کوئی ایمبولینس گزرتی ہے
پھلاہی اور کیکروں سے ڈھکے آبائی قبرستان
تھوڑی دیر کے لیے آباد ہوتے ہیں
اور پھر دعاؤں اور باتوں کی بھن بھن میں
منظر تتر بتر ہو جاتا ہے
یہاں تک کہ موسم سے اکتائے ہوئے

Offline
 

بادل بھی کسی پہاڑی قصبے کی طرف چلے جاتے ہیں
آبائی راستوں کے دکھ نظمائے نہیں جا سکتے
انہیں یاد کرتے ہوئے رویا بھی نہیں جا سکتا
یہ صرف کسی اپنے جیسے کے ساتھ شیئر کیے جا سکتے ہیں
عمریں گزر جاتی ہیں
شہروں میں اور ملکوں میں
لکڑی کے صندوق اور پیٹیاں ہماری جان نہیں چھوڑتیں
گھروں میں کوئی جگہ نہ ہو
تو دلوں اور ذہنوں کے کباڑ خانوں میں رکھی رہتی ہیں
کبھی نہ کُھلنے کے لیے
اور پھر ایک دن ہم خود بند ہو جاتے ہیں
زمین پر آخری دن آنے سے پہلے
ہمارے دن پورے ہو جاتے ہیں

Offline
 

-تُمہیں خَبر ہے"
تمہاری بے اعتنائی سے؟
وہ گُل بھی زَرد ہیں
جو رونقِ بہار تھے

Offline
 

اس کو دیکھا تو مجھ کو یہ علم ہوا
آنکھوں سے بھی قتل و غارت ہوتی ہے

Offline
 

کاش اس کو نہ ہو عدمؔ معلوم
وہ ہمیں زندگی سے پیارا ہے

Offline
 

تم سے کیوں دل کے مسائل پہ کوئی بات کرے
تم تَو ہر بات پہ کہتے ہو کوئی بات نہیں

Offline
 

اونٹ کو اللہ نے صحرا کیلئے بنایا ہے. اس ریتیلے دشت میں نہ تو اس کے پاوں ریت میں دھنستے ہیں. نہ اڑتی ریت اس کی آنکھوں کی دوہری پلکوں کی جھالر سے اسے پریشان کرتی ہے. اس کے ہونٹ اور منہ صحرائی جھاڑ جھنکار کے کانٹوں سے زخمی نہیں ہوتے اور پانی یہ طویل وقت کیلئے اپنے جسم میں ہی ذخیرہ کر سکتا ہے.
اونٹ کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا صدیاں قبل بدو لوگوں نے کیسے اسے سدھا لیا. کیونکہ آج بھی صحرا میں آپ اونٹ کو پکڑ نہیں سکتے. البتہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اونٹ کا منہ ہر وقت چل رہا ہوتا ہے تو یہ اس رسی کو ہی چبا لیتا ہے جس سے ان کو باندھ کر رکھا جاتا.بدو یہ جانتے تھے.

Offline
 

بدو تب رسی کے آخر سرے پر نمک لگا لیتے. اونٹ جب اس تیز نمکین رسی کو منہ میں ڈالتا تو اس کے تلخ ذائقہ پر فوراً منہ سے نکال لیتا. اونٹ آزادی کی سوچ ہی چھوڑ دیتا. صحرا میں بدو اس پر وزن لاد کر قافلوں میں چلتے ان کی گردن کی گھنٹیاں بج رہی ہوتی آگے پیچھے بدو گیت گاتے اور اونٹ اسے ہی زندگی مان لیتا.
عام انسان بھی نہ تو آنسو پسند کرتا ہے نہ ہی پسینہ چونکہ یہ دونوں بھی نمکین ہیں. ہمیں نمک "حسب ذائقہ" چاہئے ہے. زندگی جہاں کچھ تلخ ہوتی ہے، ہمیں رولاتی یا ہمارا پسینہ نکالنے لگتی ہے ہم بھی اونٹ کی طرح اس سے جان چڑھانا چاہتے ہیں. ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور وقت ہمارے گلے میں بھی پٹہ ڈال کر اس قافلے میں شامل کر دیتا ہے جو زندگی نہیں جیتے بلکہ زندگی ان پر بیت جاتی ہے.