Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 
Expiring post

جب مرزا غالب انگریز کی قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آ کر رہ رہے تھے۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔
غالب نے کہا: کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا۔اب کالے کی قید میں ہوں۔
_________________________________
پاکستانیوں کو دیکھتا ہوں تو یہی بات یاد آتی ہے۔
خیر آزادی مبارک

Offline
 

خاموشی کے اپنے معنی ہوتے ہیں
چُپ رہنا بھی باتیں کرنا ہوتا ہے

Offline
 

کبھی ملیں بھی تو موسم کی بات کرتے ہیں
ہمارا اس کا تعلق بھی لا معاملہ ہے
ہمیں تو اس سے محبت ہے، یہ تو مانتے ہیں
اسے نہیں ہے تو یہ اک جدا معاملہ ہے

Offline
 

خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا
یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا
دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی
جس نے دیکھا ہی نہیں اس سے خفا کیا ہونا
تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح
بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا
یوں مری یاد میں محفوظ ہیں ترے خد و خال
جس طرح دل میں کسی شے کی تمنّا ہونا

Offline
 

کیا ہے جو ہو گیا ہوں میں تھوڑا بہت خراب
تھوڑا بہت خراب تو ہونا بھی چاہیے

Offline
 

کھینچ لاتی ہے ہمیں تیری محبت ورنہ
آخری بار کئی بار ملے ہیں تجھ سے

Offline
 

پھینک جاتا ہے میرے ذہن میں یادوں کے گلاب ۔
اس جدائی میں بھی اس شخص کا ملنا دیکھو

Offline
 

جانے کس سمت سے آتی ہے اچانک تیری یاد
اور پھر کچھ بھی سمٹنے میں نہیں آتا
خود کو مصروف کئے رکھنے کی کوشش کرنا
کیا تیری یاد کے زمرے میں نہیں آتا ہے

Offline
 

جیسے کوئی سایہ دار درخت ہوتا ہے نہ مجھے لگتا ہے میں وہ درخت ہوں جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر سب کو اچھا لگتا ہے لیکن کوئی درخت کے بارے میں سوچتا ہی نہیں کوئی درخت سے نہیں پوچھتا کہ اُس کی جڑیں مضبوط ہیں یا سوکھ گئی ہیں

Offline
 

سب کی سنتے رہو پیار کرتے رہو
اور کچھ نہ کہو
چاہے بولے نہ وہ
لب کو کھولیں نہ وہ
دل الگ بات ہے
اپنے لہجے میں بھے،پیار کھولیں نہ وہ
اپنا جو فرض ہے اس طرح ہو ادا
جیسے کہ قرض ہے
کوئی جو کچھ کہے اس کی سنتے رہو
پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو
بے خیالی میں ہی لب اگر کھل گئے
اور زبان پر کبھی کوئی سچ آگیا
یوں سمجھ لو کہ پھر سلسلے جتنے تھے
درمیان جو بھی تھا

Offline
 

خواب دیکھے تھے جو
سب بکھر جائیں گے
ایسا کرنا نہیں
سب کی سنںا مگر تم بکھرنا نہیں
مسئلے سب کے سب ہیں سفید و سیاہ
مسئلوں میں کبھی رنگ بھرنا نہیں
دل میں گر پیار ہو لب پہ اقرار ہو
پیار ہی پیار بس حرف اظہار ہو
گر انا یہ کہے دل نہ مل پائیں گے
اس پہ مت جائیو
کھوٹی ہے یہ انا اس سے کچھ نہ بنا
دل کی باتیں سنو فاصلے سے سہی
پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو
راستہ ایک ہے مدعا ایک ہے
ایک ہمارا ہی کیا

Offline
 

ساری دنیا کا ہی سلسلہ ایک ہے
ایک آئے تھے ہم ایک آئے تھے تم
ایک ہے یہ سفر
بھیڑ کتنی بھی ہو
اپنی اپنی جگہ ہر کوئی ایک ہے
نام ہیں گو جدا ، پر خدا ایک ہے
بس خدا کی طرح سب کی سنتے رہو ،پیار کرتے رہو
اور کچھ نہ کہو
کہنے سننے سے تو کچھ بدلتا نہیں
رات جاتی نہیں دن ٹہرتا نہیں
ہونے والا ہے کیا کچھ بھی کھلتا نہیں۔
وقت کم ہے بہت
اتنے کم وقت میں
جس قدر کر سکو پیار کرتے چلو
اور کچھ نہ کہو۔

Offline
 

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

Offline
 

سوچوں تو ساری عمر محبت میں کٹ گئی
دیکھوں تو ایک شخص بھی میرا نہیں ہوا

Offline
 

نجا نے کس سمت سے آ جا ئے و ہ آنیو ا لا ،
میں نے ہر سمت سے دیو ار گر ا ر کھی ھے...

Offline
 

اِسے خلوص کہـو - - - - - یا ہماری نادانی
جو کوئی ہنس کے ملا اُس سے دوستی کر لی

Offline
 

ہاتھ میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
ہم کو زیبا نہیں کہ تم سے کہیں
دل کسی وجہ سے دُکھی ہے مگر
کچھ بھی ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ذہن اُلجھا ہوا ہے کچھ دن سے
لیکن اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
ورنہ اب تک نہ کہہ چکے ہوتے ؟
کبھی چاہا نہیں کہ تم سے کہیں !
تم سے کہنا ہوا تو کہہ دیں گے
ہم سے کہنا نہیں کہ تم سے کہیں
خامشی ، اشک ، روگ ، مرگ ، فرار
ایک رستہ نہیں کہ تم سے کہیں
یہ تمہاری پرانی عادت ہے
پہلی دفعہ نہیں کہ تم سے کہیں
تم کو آتا نہیں کہ ہم سے کہو
ہم سے ہوتا نہیں کہ تم سے کہیں
کہے دیتے ہیں دل کی بات ۔۔ چلو
خیر ۔۔ بنتا نہیں کہ تم سے کہیں
یونہی اک کیفیت سی ہے جواد
کوئی قصہ نہیں کہ تم سے کہیں

Offline
 

دیکھو تمہاری انا نے کیا کیا کسی نے محبت کرنا چھوڑ دی

Offline
 

ترے نہ آنے کا سن کر بہت اداس ہوا
وہ آدمی جو ترے انتظار میں بھی نہ تھا

Offline
 

ایسے دیکھا کرتا تھا میں اس کی جھیل سی آنکھیں
جیسے کوئی دیکھ رھا ھو پہلی بار سمندر