جب مرزا غالب انگریز کی قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آ کر رہ رہے تھے۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ غالب نے کہا: کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا۔اب کالے کی قید میں ہوں۔ _________________________________ پاکستانیوں کو دیکھتا ہوں تو یہی بات یاد آتی ہے۔ خیر آزادی مبارک
خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی جس نے دیکھا ہی نہیں اس سے خفا کیا ہونا تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا یوں مری یاد میں محفوظ ہیں ترے خد و خال جس طرح دل میں کسی شے کی تمنّا ہونا
جیسے کوئی سایہ دار درخت ہوتا ہے نہ مجھے لگتا ہے میں وہ درخت ہوں جس کی چھاؤں میں بیٹھ کر سب کو اچھا لگتا ہے لیکن کوئی درخت کے بارے میں سوچتا ہی نہیں کوئی درخت سے نہیں پوچھتا کہ اُس کی جڑیں مضبوط ہیں یا سوکھ گئی ہیں
سب کی سنتے رہو پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو چاہے بولے نہ وہ لب کو کھولیں نہ وہ دل الگ بات ہے اپنے لہجے میں بھے،پیار کھولیں نہ وہ اپنا جو فرض ہے اس طرح ہو ادا جیسے کہ قرض ہے کوئی جو کچھ کہے اس کی سنتے رہو پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو بے خیالی میں ہی لب اگر کھل گئے اور زبان پر کبھی کوئی سچ آگیا یوں سمجھ لو کہ پھر سلسلے جتنے تھے درمیان جو بھی تھا
خواب دیکھے تھے جو سب بکھر جائیں گے ایسا کرنا نہیں سب کی سنںا مگر تم بکھرنا نہیں مسئلے سب کے سب ہیں سفید و سیاہ مسئلوں میں کبھی رنگ بھرنا نہیں دل میں گر پیار ہو لب پہ اقرار ہو پیار ہی پیار بس حرف اظہار ہو گر انا یہ کہے دل نہ مل پائیں گے اس پہ مت جائیو کھوٹی ہے یہ انا اس سے کچھ نہ بنا دل کی باتیں سنو فاصلے سے سہی پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو راستہ ایک ہے مدعا ایک ہے ایک ہمارا ہی کیا
ساری دنیا کا ہی سلسلہ ایک ہے ایک آئے تھے ہم ایک آئے تھے تم ایک ہے یہ سفر بھیڑ کتنی بھی ہو اپنی اپنی جگہ ہر کوئی ایک ہے نام ہیں گو جدا ، پر خدا ایک ہے بس خدا کی طرح سب کی سنتے رہو ،پیار کرتے رہو اور کچھ نہ کہو کہنے سننے سے تو کچھ بدلتا نہیں رات جاتی نہیں دن ٹہرتا نہیں ہونے والا ہے کیا کچھ بھی کھلتا نہیں۔ وقت کم ہے بہت اتنے کم وقت میں جس قدر کر سکو پیار کرتے چلو اور کچھ نہ کہو۔
ہاتھ میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں ہم کو زیبا نہیں کہ تم سے کہیں دل کسی وجہ سے دُکھی ہے مگر کچھ بھی ایسا نہیں کہ تم سے کہیں ذہن اُلجھا ہوا ہے کچھ دن سے لیکن اتنا نہیں کہ تم سے کہیں ورنہ اب تک نہ کہہ چکے ہوتے ؟ کبھی چاہا نہیں کہ تم سے کہیں ! تم سے کہنا ہوا تو کہہ دیں گے ہم سے کہنا نہیں کہ تم سے کہیں خامشی ، اشک ، روگ ، مرگ ، فرار ایک رستہ نہیں کہ تم سے کہیں یہ تمہاری پرانی عادت ہے پہلی دفعہ نہیں کہ تم سے کہیں تم کو آتا نہیں کہ ہم سے کہو ہم سے ہوتا نہیں کہ تم سے کہیں کہے دیتے ہیں دل کی بات ۔۔ چلو خیر ۔۔ بنتا نہیں کہ تم سے کہیں یونہی اک کیفیت سی ہے جواد کوئی قصہ نہیں کہ تم سے کہیں