Damadam.pk
Offline's posts | Damadam

Offline's posts:

Offline
 

آپ نے کہا تھا کہ بیس سے پچیس سال کی عمر میں انسان کِھلتے ہوئے پھول جیسا ہوتا ہے،
دنیا دیکھتا ہے،رنگوں سے کھیلتا ہے،تتلیوں کے پیچھے دوڑتا ہے،سورج نکلنے سے پہلے ننگے پاؤں نم گھاس پر رقص کرتا ہے،
دوستوں کے ساتھ چائے پیتا ہے،
ہر اس گلی کی خاک چھانتا ہے جہاں خوبصورت گھر ہوں،ہر اس شہر کی طرف سفر کرتا ہے جہاں اونچی اونچی سرسبز پہاڑیاں ہوں، خاموشی ہو۔
نیچے اترتے ہی
لوگوں کے قہقہوں کی آوازیں ہوں،
بچوں کے کھلکھلانے کا شور ہو۔
زندگی،زندگی لگتی ہو۔
لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔

Offline
 

مُدتوں سے یہی عالَم نہ توقع نہ اُمید
دِل پُکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں

Offline
 

جو تُو نہیں ہے تو اس کو پکارتے ہیں ہم
ہمارے شہر میں اک شخص تیرے نام کا ہے

Offline
 

کوئی ہے جس سے جرمِ محبت نہ ہو
کیوں مری دشت میں پیشیاں لگ گئیں

Offline
 

اپنے سامان کو باندھے ہوئے اِس سوچ میں ہوں
جو کہیں کے نہیں رہتے وہ کہاں جاتے ہیں ؟

Offline
 

اور کیا ہوگا بھلا سینے میں دل کا مصرف
بس اسی واسطے رکھا ہے ،دُکھایا کیجئے

Offline
 

اسکو فرصت ھی نہیں وقت نکالے محسن
ایسے ھوتے ھیں بھلا چاھنے والے محسن

Offline
 

لیے پِھرا ھُوں ، نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دِل ھے کہ ، وہ راہ بُھولتا ھی نہیں۔

Offline
 

اس رنگِ تعلق پہ تعجب ہے کہ ہم لوگ
موجود تو ہوتے ہیں میسر نہیں ہوتے

Offline
 

وہ پریشاں ہے میرے جلنے سے
اس کی آنکھوں میں دھواں پڑتا ہے

Offline
 

تو میری آنکھوں میں بیٹھ جا اور میں پلکیں بند کرلوں تاکہ نہ دنیا تجھے دیکھے اور نہ میں تیرے بغیر کسی کو دیکھ سکوں

Offline
 

ابھی مصر و ف ھو ں بہت فر صت ملے گی تو سو چو ں گا
کہ تجھ کو یا د ر کھنے میں ،میں کیا کیا بھو ل جاتا ھو ں

Offline
 

ہوتا ہے ہجر پانچ عناصر پہ مشتمل
امید ، انتظار ، اداسی ، کسک ، نمی

Offline
 

کوئی مجھ سے مسلسل پوچھتا یہ ہے
کہ پہلی بار میں خود سے ملا تھا کب؟
کہاں؟ کس مو ڑ پر؟ کس راستے پر؟
کون سی گلیوں میں اوارہ پھیرا تھا میں؟
ملا بھی تھا؟ کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا تھا میں؟

Offline
 

کچھ غمِ جاناں کچھ غمِ دوراں
دونوں میری ذات کے نام
ایک غزل منسوب ہے اُس سے
ایک غزل حالات کے نام
موجِ بلادیوارِ شہر پر اب تک جو کچھ لکھتی رہی
میری کتابیں زیست کو پڑھئیے درج ہیں سب صدمات کے نام
روشن چہرہ بھیگی زلفیں دوں کس کو کس پر ترجیح
ایک قصیدہ دھوپ کا لکھوں ایک غزل برسات کے نام
اس کی گلی سے مقتل جاں تک مسجد سے میخانے تک
الجھن پیاس خلش تنہائی کَرب زدو لمحات کے نام

Offline
 

درخت اور پرندے تمام پوچھتے ہیں
تمہارے بارے میں سب کو بتانا پڑتا ہے
.
.
.
نجانے تم کون ہو مگر تم ہو
ارد گرد ، سینے کے بائیں جانب ۔۔۔۔
یہیں کہیں ،

Offline
 

جب مشہور اطالوی اداکارہ صوفیا لورین کے زیورات لندن میں چوری ہو گئے،
تو وہ شدید افسردہ ہو گئیں، اور مسلسل روتی رہیں۔
اس کٹھن وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہدایتکار ویٹوریو ڈی سیگا۔
جب وہ شدتِ گریہ میں تھیں،
اس نے ان سے کہا:
"اپنے آنسو بچا لو، صوفیا۔
ہم دونوں نیپلز (ناپولی) کے غریبوں میں سے ہیں، ہم راکھ سے اٹھے،
اور خود کو بنایا۔
ہم نے بہت کچھ جیتا، کچھ کھویا، اور پھر جیتا کیونکہ دولت آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔"
وہ اس کی بات سن کر مزید رو پڑیں، اور غمگین لہجے میں بولیں:
"تم کچھ نہیں سمجھتے، وہ زیورات اور گہنے میرے وجود کا حصہ تھے!"
یہ سن کر ان کے دوست ہدایتکار نے آہستہ سے رومال نکالا،
نرمی سے اس کے آنسو پونچھے،
اور اپنی مشہور بات کہی:
"کبھی اُس چیز کے لیے مت روؤ جو تمہارے لیے رو نہیں سکتی۔"
منقول

Offline
 

ھم سادہ ھی ایسے تھے، کی یوں ھی پذیرائی
جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی

Offline
 

جب تک وہ بے نشاں رہا، دسترس میں تھا
خوش نام ہو گیا تو ہمارا نہیں رہا

Offline
 

جیسے تو چلا آئے کسی شام اچانک
جیسے کوئی کھوئی شے مل نہیں جاتی