آپ نے کہا تھا کہ بیس سے پچیس سال کی عمر میں انسان کِھلتے ہوئے پھول جیسا ہوتا ہے، دنیا دیکھتا ہے،رنگوں سے کھیلتا ہے،تتلیوں کے پیچھے دوڑتا ہے،سورج نکلنے سے پہلے ننگے پاؤں نم گھاس پر رقص کرتا ہے، دوستوں کے ساتھ چائے پیتا ہے، ہر اس گلی کی خاک چھانتا ہے جہاں خوبصورت گھر ہوں،ہر اس شہر کی طرف سفر کرتا ہے جہاں اونچی اونچی سرسبز پہاڑیاں ہوں، خاموشی ہو۔ نیچے اترتے ہی لوگوں کے قہقہوں کی آوازیں ہوں، بچوں کے کھلکھلانے کا شور ہو۔ زندگی،زندگی لگتی ہو۔ لیکن ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا۔
کوئی مجھ سے مسلسل پوچھتا یہ ہے کہ پہلی بار میں خود سے ملا تھا کب؟ کہاں؟ کس مو ڑ پر؟ کس راستے پر؟ کون سی گلیوں میں اوارہ پھیرا تھا میں؟ ملا بھی تھا؟ کہ اپنے آپ سے روٹھا ہوا تھا میں؟
کچھ غمِ جاناں کچھ غمِ دوراں دونوں میری ذات کے نام ایک غزل منسوب ہے اُس سے ایک غزل حالات کے نام موجِ بلادیوارِ شہر پر اب تک جو کچھ لکھتی رہی میری کتابیں زیست کو پڑھئیے درج ہیں سب صدمات کے نام روشن چہرہ بھیگی زلفیں دوں کس کو کس پر ترجیح ایک قصیدہ دھوپ کا لکھوں ایک غزل برسات کے نام اس کی گلی سے مقتل جاں تک مسجد سے میخانے تک الجھن پیاس خلش تنہائی کَرب زدو لمحات کے نام
جب مشہور اطالوی اداکارہ صوفیا لورین کے زیورات لندن میں چوری ہو گئے، تو وہ شدید افسردہ ہو گئیں، اور مسلسل روتی رہیں۔ اس کٹھن وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہدایتکار ویٹوریو ڈی سیگا۔ جب وہ شدتِ گریہ میں تھیں، اس نے ان سے کہا: "اپنے آنسو بچا لو، صوفیا۔ ہم دونوں نیپلز (ناپولی) کے غریبوں میں سے ہیں، ہم راکھ سے اٹھے، اور خود کو بنایا۔ ہم نے بہت کچھ جیتا، کچھ کھویا، اور پھر جیتا کیونکہ دولت آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔" وہ اس کی بات سن کر مزید رو پڑیں، اور غمگین لہجے میں بولیں: "تم کچھ نہیں سمجھتے، وہ زیورات اور گہنے میرے وجود کا حصہ تھے!" یہ سن کر ان کے دوست ہدایتکار نے آہستہ سے رومال نکالا، نرمی سے اس کے آنسو پونچھے، اور اپنی مشہور بات کہی: "کبھی اُس چیز کے لیے مت روؤ جو تمہارے لیے رو نہیں سکتی۔" منقول