کاش پوچھے کوئی مجھ سے کہ محبت کیا ہے اور میں اس کو بتاؤں کہ حقیقت کیا ہے کاش سوچے کوئی احساس کسے کہتے ہیں کاش سمجھے کوئی الفاظ کی حرمت کیا ہے کاش ایسا بھی کوئی ہوتا جو مجھ سے کہتا میں ترے ساتھ ہوں ڈرنے کی ضرورت کیا ہے کاش اک شعر مرا تیری نظر سے گزرے کاش تو جان سکے شعر کی لذت کیا ہے کاش مجنوں کوئی بھولے سے ادھر آ جائے ہم بھی دکھلائیں اسے حاصلِ وحشت کیا ہے کاش پڑھ لیتا ضیاء میرا فسانہ کوئی اور سمجھ لیتا فسانے کی حقیقت کیا ہے
ہماری زندگی سے کسی انسان کا Exit آسانی سے ہو جاتا ہے. اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا.. ایک دن سب کو ہی اپنے نقصان پہ صبر کرنا ہی پڑتا ہے. جیسے آج میں تمہارے اس طرح منہ پھیر جانے پہ صبر کئے ہوے ہوں. تمہیں بھی تو جوابدہ ہونا ہوگا....!!اب اتنا جان گئی ہوں کہ میں بدلی نہیں ہوں لیکن اب بس میں تھک گئی ہوں.....اب دیکھنا میرا صبر اب میں نہ تمہارے راستے میں کھڑی رہوں گی نا ہی آنکھ اٹھا کر دیکھوں گی یہ نہیں ہے کہ میری چاہت بدل گئی ہے یہ نہیں ہے کہ میری جستجو مدھم ہوگئی ہے.بلکل بھی نہیں مگر بس اب صبر آگیا ہے.جب صبر آجائے نا تو بس پھر سچی چاہت کا حال مجھ جیسا ہوجاتا ہے....
آج سے کچھ سال پہلے میں ہر چیز ساتھ بہت زیادہ Attach ہو جاتی تھی۔اتنا زیادہ کے کسی معمولی چیز یا انسان کے دور جانے پر گھنٹوں بیٹھ کے روتی رہتی تھی۔پھر بہت سے اپنے اتنے دور گۓ کے دوبارہ ملنے کی امید بھی ختم ہوگٸ۔اُس وقت مشکل لگتا تھا مگر اب سمجھ آٸ ہے اُن لوگوں کو دور کرنے میں بھی اللہ کی مصلحت تھی مجھے مضبوط کرنا تھا بہت کچھ سکھانا تھا۔اب قدرے پختگی آگٸ ہے اب کسی کے آنے اور جانے سے فرق نہیں پڑتا۔دل مطمن رہتا ہے بھروسہ رہتا ہے اللہ کی ذات پہ کہ کچھ غلط نہیں کرےگا۔ کس نے کسں وقت تک ساتھ رہنا ہے اس کا فیصلہ بھی اللہ کی ذات کرتی ہے جو انسان ہماری ذات کے لیےفاٸدہ مند ہوتا ہے اللہ تب تک اُس کو شامل رکھتا اور جہاں وہ دیکھتا ہے کہ وقت ختم ہو گیا پھر خود ہی سبب بنا دیتا ہے اُس کی دوری کا۔وقت نے سیکھایا ہے ہر چیز عارضی ہے مگر کچھ چیزیں داٸمی بھی ہوتی