ے ویران کنارے پہ کھڑا سوچتا ہوں کیسا دریا ھے جو اک لمحے میں بھر آتا ھے.
بعد آنکھوں کے مرا دل بھی نکالا اس نے اس کو شک تھا کہ مجھے اب بھی نظر آتا ھے
کسی کی کیا مجال تھی جو ہم کو خرید سکتا
ہم تو خو د ہی بِک گئے خریدار دیکھ کر۔
پڑنے لگی ہے تم پے زمانے کی نظر
جلنے لگے ہیں لوگ میرے انتخا ب سے۔
میں نے کہا کہ کیسے کٹے گی بن تیرے زندگی
جلتے ہوئے چراغ کو اس نے بجھا دیا
بہت تنگ ہو تیری نوکری سے
اے زندگی میرا حساب کر دے
اے موت تو ہی آکر قصہ تمام کر دے
ہم زندگی کے ہاتھوں قسطوں میں مر رہے ہیں
مقدر نے کی ہم سے بغا وت اس قدر
کہ ایک شخص ہماری زند گی ویران کر گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ پھر مر کر دکھا یا جائے
ابھی کچھ لوگ تماشے میں نئے آ ئے ہیں۔
کتنی اذیت ہے اس پیا ر میں
کہ مجھے تم سے ملے بنا ہی مر جا نا ہے۔
اس نے بھُلا دیا تو شکوہ نہ کر اے زندگی!
جن کو دل کی چو کھٹ پے بیٹھا ؤ ان کے بڑے اختیا ر ہو ا کرتے ہیں۔
ہم نے سُوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکاتھا
پھول اگر اب بھی نہ کھلتے تو قیامت ہوتی۔
لوگ دیوانے ہیں بناوٹ کے
ہم کہا ں جائیں سادگی لے کر۔
تو نے سوچاہے کبھی راہ بدلنے والے
جو تیرے ہجرمیں رُلتے ہیں کدھر جاتے ہیں۔
آنکھیں بھی دھڑکنوں کی زباں بولنے لگیں
اوجھل ہو اوہ شخص ۔۔۔ تو کہرام مچ گیا۔
ہم نے ہر دُکھ کو محبت کی عِنایت سمجھا
ہم کوئی تم تھے کہ تم سے شکایت کرتے۔