آہستہ آہستہ ان کے خیالات بدلنے لگے پھر یوں ہوا نگاہیں وہ ہم سے چرانے لگے دوری نہ گوارا تھی اک پل بھی ہم سے پھر یوں ہوا وہ ہم سے دور ہونے لگے قیام دل میں ان کے کرتے تھے ہم ہی مگر پھر یوں ہوا وہ دل سے ہمیں نکالنے لگے باتیں ہوتی تھیں صبح شام ان سے ہماری پھر یوں ہوا وہ قطع تعلق وہ کرنے لگے وہ جسے چاہنے میں اک عمر گزری ہماری پھر یوں ہوا وہ ہمیں جان سے انجان بنانے لگے کانٹا بھی اگر چھبتا تھا ہمیں تو کانپ جاتا تھا اس کا دل پھر یوں ہوا درد دے کر ہمیں وہ مسکرانے لگے دکھ بیان کر رہی تھی شاعری میں اپنا پھر یوں ہوا دنیا سن کے داد دینے لگی Poetry by poetess sweety ✍️