!ہجر کے صدمے سہنا آسان نہیں ہوتا سرکار
جانکَنی کے عزاب سے گزرنا پڑتا ہے بار بار
اچھا تو وہ پیار کا ہمین مطلب سمجھائین گے ۔
دل کو درد ھزارھا دے کر اپنے صبر آزمائین گے۔
اچھا تو وہ کھریدین گے دل کی زمین اپنے۔
اچھا تو وہ پودہ ء وفا پھر سے لگائین گے۔
اچھا تو وہ سینچین گے لہو سے جگر اپنے !
اچھا تو وہ دل کو ہمارے گلشن بنائین گے۔
اچھا تو وہ نام کی اپنے تختی لگا کر دل پے۔
دل کو ہمارے حسن کااپنے گرویدہ بنائین گے
نہ اس کا انت ہے کوئی نہ استعارہ ہے
یہ داستان ہے ہجر و وصال سے باہر
دعا بزرگوں کی رکھتی ہے زخم الفت کو
کسی علاج کسی اندمال سے باہر
بیاں ہو کس طرح وہ کیفیت کہ ہے امجدؔ
مری طلب سے فراواں مجال سے باہر
کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر
ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر
تو پھر وہ کون ہے جو ماورا ہے ہر شے سے
نہیں ہے کچھ بھی یہاں گر خیال سے باہر
یہ کائنات سراپا جواب ہے جس کا
وہ اک سوال ہے پھر بھی سوال سے باہر
ہے یاد اہل وطن یوں کہ ریگ ساحل پر
گری ہوئی کوئی مچھلی ہو جال سے باہر
عجیب سلسلۂ رنگ ہے تمنا بھی
حد عروج سے آگے زوال ہے باہر
بگاڑ پر ہے جو تنقید سب بجا لیکن
تمہارے حصے کے جو کام تھے سنوارے بھی
بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
پہ جیسے ریل میں دو اجنبی مسافر ہوں
سفر میں ساتھ رہے یوں تو ہم تمہارے بھی
یہی سہی تری مرضی سمجھ نہ پائے ہم
خدا گواہ کہ مبہم تھے کچھ اشارے بھی
یہی تو ایک حوالہ ہے میرے ہونے کا
یہی گراتی ہے مجھ کو یہی اتارے بھی
اسی زمین میں اک دن مجھے بھی سونا ہے
اسی زمیں کی امانت ہیں میرے پیارے بھی
وہ اب جو دیکھ کے پہچانتے نہیں امجدؔ
ہے کل کی بات یہ لگتے تھے کچھ ہمارے بھی
تھے خواب ایک ہمارے بھی اور تمہارے بھی
پر اپنا کھیل دکھاتے رہے ستارے بھی
یہ زندگی ہے یہاں اس طرح ہی ہوتا ہے
سبھی نے بوجھ سے لادے ہیں کچھ اتارے بھی
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
کسی کا اپنا محبت میں کچھ نہیں ہوتا
کہ مشترک ہیں یہاں سود بھی خسارے بھی
اے خدا جب تو روبرو کرنا
اپنے بندے کو سرخرو کرنا
سوچتا ہوں کہ بجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے
ہم لوگ ہوس زادے ہیں اسی واسطے
جنت میں بھی بس حور تک گئے
Jin par loota chuka tha main duniya ki doltain
Un waarson ne mujhko kafan naap kar dia
جہاں کل ہر قدم پر مسکراہٹ رقص کرتی تھی
میں خوش ہوں آج بھی وہ رونق بازار زندہ ہے
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
مسکرانا نہ بھول جایا کرو
کل تک تو آشنا تھے ، مگر آج غیر ہو
دو دن میں یہ مزاج ہے، آگے کی خیر ہو
کیا عشق تھا جو باعث رسوائی بن گیا
یارو تمام شہر تماشائی بن گیا
بن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رت جگے
میں جب سے ایک چاند کا شیدائی بن گیا
دیکھا جو اس کا دست حنائی قریب سے
احساس گونجتی ہوئی شہنائی بن گیا
برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہ شناسائی بن گیا
پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے گوشۂ تنہائی بن گیا
تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو پیکر دانائی بن گیا
کرتا رہا جو روز مجھے اس سے بدگماں
وہ شخص بھی اب اس کا تمنائی بن گیا
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
وہ شخص کہ میں جس سے محبت نہیں کرتا
ہنستا ہے مجھے دیکھ کے ، نفرت نہیں کرتا
گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں
چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا
دیتے ہیں اجالے مرے سجدوں کی گواہی
میں چھپ کے اندھیروں میں عبادت نہیں کرتا
بھولا نہیں میں آج بھی آداب جوانی
میں آج بھی اوروں کو نصیحت نہیں کرتا
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتش سیال سے ہم
شعلۂ عارض گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂ ارباب وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربط باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
ہوائیں تیز تھیں یہ تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے پہ کب لگانے تھے
خیال آتا ہے رہ رہ کے لوٹ جانے کا
سفر سے پہلے ہمیں اپنے گھر جلانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ تو زد پہ سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
تلاش جن کو ہمیشہ بزرگ کرتے رہے
نہ جانے کون سی دنیا میں وہ خزانے تھے
چلن تھا سب کے غموں میں شریک رہنے کا
عجیب دن تھے عجب سرپھرے زمانے تھے
اک آپ ہی کی دید کے قابل میں نہیں تھا
ترسیں ہیں وہ آنکھیں جنہیں حاصل میں نہیں تھا
لہجوں لو سہا آپ کے تو اپنا سمجھ کر
ان لہجوں کا ورنہ کبھی قائل میں نہیں تھا
میں جانتا تھا آستیں میں سانپ چھپے ہیں
اپنوں میں چھپے غیروں سے غافل میں نہیں تھا
ہاں ہوں میں برا مانا مگر آپ کے جیسے
معصوموں کے جذباتوں کا قاتل میں نہیں تھا
یہ ظرف مرا ہے کہ ہوں خاموش فرشتہؔ
الفاظ تھے پر آپ سہ جاہل میں نہیں تھا
کبھی راہِ طلب میں دل کو آسانی نہیں ہوتی
جنہیں اپنی گناہوں پر پشیمانی نہیں ہوتی
ہزاروں بجلیاں ٹوٹے شبِ اسریٰ نشیمن پر
مجھے اب حال پر اس کے حیرانی نہیں ہوتی
کسی مفلس کے کاسے سے نیوالا چھیننے والے
بجھے دل پر کبھی صاحب کی سلطانی نہیں ہوتی
اگرچہ لاکھ لے آوں ستارے اپنی چوکھٹ پر
مگر پھر بھی میرے گھر ميں تابانی نہیں ہوتی
کوئی تو راز ہے آخر چھپائے جا رہا مجھ سے
وگرنہ عشق میں اتنی بھی نادانی نہیں ہوتی
اگر ممکن ہو گلشن کے اصولِ ارتقا بدلو
اکیلے خار سے گل کی نگہبانی نہیں ہوتی
Gar Sukoon Chahiye Is Lamha-e-Maujud Mai Bhi
Aao Is Lamha-e-Maujud Se Bahar Niklen
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain