چھوٹے چھوٹے سے مفادات لیے پھرتے ہیں در بدر خود کو جو دن رات لیے پھرتے ہیں اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر ہاتھ میں کاسۂ خیرات لیے پھرتے ہیں شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا کچھ سلگتے ہوئے نغمات لیے پھرتے ہیں مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے منفرد ہم غم_ حالات لیے پھرتے ہیں ایک ہم ہیں کہ غم_ دہر سے فرصت ہی نہیں ایک وہ ہیں کہ غم_ ذات لیے پھرتے ہیں ۔“
مستیء حال کبھی تھی ، کہ نہ تھی ، بھول گئے یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریب کیا میرے دوست میری سادہ دلی بھول گئے میں تو بے حس ہوں ، مجھے درد کا احساس نہیں چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے؟ اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم اپنا گھر بھول گئے ، ان کی گلی بھول گئے کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی ، بھول گئے سرکار جون ایلیا (ماخوذ لیکن غزل 169)
سخن آتے ہیں اس کے یاد بہت دل کو تھا اس سے اتحاد بہت جب بھی چلتی ہے اس طرف سے ہوا شور کرتے ہیں نامراد بہت حُسن پر اس کے نکتہ چیں ہی رہے تھا طبیعت میں اجتہاد بہت درمیانِ ہجومِ مشّاقاں اُس گلی میں رہے فساد بہت اس کا روزِ سفر اور آج کی شام درمیاں میں ہے امتداد بہت مجھ سے اک بادیہ نشیں نے کہا شہر والے ہیں بدنہاد بہت زخمِ دل کو بناؤ زخمہ ءِ ساز بستیوں سے ملے گی داد بہت جونؔ اسلامیوں سے بحث نہ کر تُند ہیں یہ ثمود و عاد بہت #Lakin_Ghazal_No_48 @#Bramiz