جواَدھوری رہ گئی تھی، وہ کہانی سوچنا
بیٹھ کر تنہا، فقط باتیں پُرانی سوچنا
وہاں نہ پھول کھلتے نہ ہی موسم بدلتے ہیں
وہاں تو کچھ نہیں ہوتا جہاں پر تم نہیں ہوتے
یہاں تو لوگ سدیوں کو بھی لمحوں میں بدلتے ہیں
میرا ایک پل نہیں کٹتا جہاں پر تم نہیں ہوتے
تجھ سے مِلتے ہی وہ کچھ بے باک ہو جانا مِرا
اور تِرا دانتوں میں وہ اُنگلی دبانا یاد ہے
دھوپ اُدھر ڈھلتی تھی دل ڈوبتا جاتا ا دھر۔
آج تک یاد ہے وہ شام جدائی مجھ کو۔
اپنی قسمت میں کوئی شخص منانے کو نہیں
ہم وہ بے سود جو روٹھیں تو پڑے رہتے ہیں،
محسن وہ میری آنکھ سے اوجھل ہوا نہ جب سورج تھا میرے سر پر مگر رات ہوگئی
صِرف وہ اِک شَخص کسی طرح سے مِل جَاتا،
مُجھے مَنظور تھے پِھر جِتنے بھی خَسارے ہوتے
آہٹ پہ کان ، در پہ نظر ، دل میں اشتیاق ۔۔
کچھ ایسی بے خودی ہے ، تیرے انتظار کی ۔۔
ایک ہی بار میں خوابوں سے کنارہ کر کے
بجھ گئی دید شب وصل نظارہ کر کے
جز ترے اور طریقے بھی نکل سکتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہیں خود کو دوبارہ کر کے
ہم تو بس بولنے والے تھے سبھی کچھ سچ سچ
تم نے اچھا ہی کیا چپ کا اشارہ کر کے
ہم تو صدیوں سے اسی طور بسر کرتے ہیں
تم بھی کچھ روز یہاں دیکھو گزارا کر کے
خود کو سونپا تھا تمہیں ہم کو تمہارا کرنے
تم نے لوٹایا ہمیں ہم کو ہمارا کر کے
کرتے رہتے ہیں جو ہر وقت تمہارا چرچا
خود کو چھوڑیں گے کسی روز تمہارا کر کے
اب یہ دریا یہ تلاطم یہ سفینہ کیا ہے
ہم تو سب بھول گئے تم کو سہارا کر کے
رُوح میں شامل ہے فقط نس نس میں نہیں
وہ اِک شخص ، جو میری دسترس میں نہیں
حل یہی ہے کہ ____ بھول جاؤں اُسے
اور اک یہی بات میرے بس میں نہیں...
زندگی بانجھ رہے ' وصل کسی طور نہ ہو !!
تو نہیں ہے تو مرے ساتھ کوٸی اور نہ ہو
میری خواہش ہے خموشی میں بسر ہونے لگوں
حادثے پیش بھی آٸیں تو کہیں شور نہ ہو !!
بس یہی سوچ کے خوش باش رہا جانے لگا
تجھ کو افسوس تو ہو،ہاتھ سے کیا جانے لگا
میں نے اک شعر ترے نام کیا ہے جب سے
میرا ہر شعر توجہ سے سنا جانے لگا
لوگ اک دور میں دیواریں چنا کرتے تھے
پھر تو دیوار میں لوگوں کو چنا جانے لگا
تجھ کو اک بار مرے دکھ پہ ہنسی آئی تھی
پھر ہر افتاد پہ دنیا میں ہنسا جانے لگا
میں نے اس شخص کو جانے کی اجازت کیا دی
میں اسے بھیجنے والوں میں گنا جانے لگا
میں نے دھو ڈالے نشانات لہو سے اپنے
جب یہ دیکھا کہ تری سمت کھرا جانے لگا
مجھ کو اک شخص سے ملنے کی بہت جلدی تھی
اتنی جلدی تھی کہ نیندوں میں ملا جانے لگا
مجھ کو بھگوان کا اوتار سمجھ بیٹھا تھا
آنکھ جھپکی تو پرستار اٹھا ،جانے لگا
جیسے شہروں کے کبھی نام پڑا کرتے تھے
ایسے اک دن سے مجھے تیرا کہا جانے لگا
پھر کیوں فریبِ خوابِ مسرت دیا ہمیں
تو خوب جانتا ہے سدا کے دکھی تھے ہم
اُس آخری نظر میں ، عجب درد تھا منیرؔ
جانے کا اُس کے رنج ، مجھے عمر بھر رہا
کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain