تیری یادوں کے تحفے لئے اندھیری رات کی تنہائیوں کو ساتھ رکھ کر جو پہر میں نے جیا ہے اسے رات کہتے ہیں
کچھ دیر ہی سہی دیدار یار لازم ہے
کچھ دیر ہی سہی کر دو کرم ہم پے بھی
درِ ویراں کو بہار ہوئی نصیب
تم جو آئے ہو میرے غم خانے میں
دل کی کالی تھی وہ
لیکن سفید چونا لگا گئی
فریب ہے حّسن تیرا بنتِ حوا
اور نادان ابنِ آدم مشغولِ عبادت ہے
حّسن میں ملبوس آفت زدہ لوگوں سے دور رہنا بھی کسی نعمت سے کم نہیں
محبت میں فاقہ کشی نہیں کٹتی جاناں
اس راہ میں دیدارِ یار لازم ٹھہرا
خوب فریب ہے تیری ان آنکھوں میں
لیکن کسی طور یہ حسن بھی تو ڈھل جائے گا