نازکی ان کے لب کی کیا کہیے پنکڑی اک گلاب کی سی ہے میں جو بولا کہا کہ یہ آواز اسی خانہ خراب کی سی ہے بارباراسکے در پہ جاتا هوں حالت اب اضطراب کی سی ہے میر ان نیم باز انکهوں میں ساری مستی شراب کی سی ہے
سرکتی جاے هے رخ سے نقاب آہسته آہسته نکلتا آرہا هے آفتاب آہسته آہسته بڑے ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کرلیا پردہ حیا یکلخت آی اور شباب آہسته آہسته شبء فرقت کا جاگا ہوں فرشتو اب تو سونے دو کهبی فرصت میں کر لینا حساب آہسته آہسته وه بے دردی سے سر کاٹیں امیر اور میں کہوں ان سے جناب آہسته آہسته حضور آہسته آہسته.-