خاموش لمحوں میں بھی تیری باتیں ہوتی ہیں، بے آواز سانسوں میں کچھ ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ تنہا فضا میں گونجتی تیری ہنسی کی بازگشت، یادوں کی راہوں میں کچھ خوشبو کی سوغاتیں ہوتی ہیں۔ دل سے نکل کر دل تک پہنچتی ہیں کچھ صدائیں، چپ رہ کر بھی ہم میں کچھ باتیں ہوتی ہیں۔ نہ لب ہلتے ہیں، نہ آنکھ کچھ کہتی ہے، پھر بھی نگاہوں میں تری حکایاتیں ہوتی ہیں۔ چاندنی راتیں بھی تجھے سنبھالے پھرتی ہیں، تیرے بِن بھی دل کی کچھ عبادتیں ہوتی ہیں۔ کبھی دھوپ میں، کبھی سائے میں، ہر لمحے تیری کچھ یادیں ساتھیں ہوتی ہیں۔
دوستی وہ آئینہ ہے جس میں صرف دل دکھائی دیتا ہے، چہرہ نہیں، چال نہیں، صرف نیت بولتی ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جو زبان سے نہیں، دعا سے جڑتا ہے، اور جب رب جوڑ دے… تو دوری بھی قربت لگتی ہے۔
ذرا سا ہجر کی وحشت کو کم کیا جائے کہ ہم پہ سورہ ء یٰسیں کا دم کیا جائے سوال پوچھ کے سب لوگ جان کھا لیں گے سمجھ کے ، سوچ کے ، آنکھوں کو نم کیا جائے ہوائیں منزلیں بھٹکانے آئیں گی ساری کہ زادِ راہ کو نقشِ قدم کیا جائے کبھی بھی جراتِ گفتار کم نہیں ہوگی مری زبان کو چاہے قلم کیا جائے ہمیں تو مسئلے لاحق ہیں رزق کے اور تو یہ چاہتا ہے محبت کا غم کیا جائے
یزید صرف تلوار سے ظلم نہیں کر رہا تھا، بلکہ دین کو بگاڑ رہا تھا۔ حسینؑ نے سکوت توڑا اور اعلان کیا: > ❝ میں ظالم کے خلاف قیام اس لیے کر رہا ہوں کہ امت محمد ﷺ کو جگا سکوں۔ ❞ > ⭐ خاموشی ظالم کی ہمت بنتی ہے، اور حق کی موت۔ حسینؑ کا پیغام ہے: چپ مت رہو!
کربلا صرف ایک جنگ نہیں، بلکہ ایک نظامِ حق اور باطل کے ٹکراؤ کا نام ہے۔ یزید طاقت، سیاست، جبر اور دھوکے کی علامت تھا۔ حسینؓ صبر، تقویٰ، صداقت اور عشقِ الٰہی کی علامت تھے۔ امام حسینؓ نے سر کٹوا دیا، مگر ظلم کو تسلیم نہ کیا۔ یہی وہ قربانی ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا۔
خون میں ڈوبا ہوا سورج، کربلا کی شام ہے اک طرف نیزے کھڑے ہیں، اک طرف اسلام ہے پیاس کی شدت بھی ہے، خیمے بھی جلتے گئے پھر بھی لب پر صبر ہے، دل میں فقط حق کا علم ہے سجدہ کر کے سر دیا، پر جھکایا نہ کبھی یہ حسینؑ ابنِ علیؑ ہے، فخرِ آلِ نبیؐ ننھے اصغرؑ کا لہو، کتنا پکارا آسمان میرے بابا کو نہ دو، تم وفا کا یہ نشان عباسؑ کے بازو کٹے، پر وفا کو مات دی کربلا نے آج پھر، صبر کو اک ذات دی سوچتا ہے وقت بھی، کیسے جیتا ہے حسینؑ؟ سر کٹا، تن بے کفن، پھر بھی زندہ ہے حسینؑ!
محرم کی شام ہے، سکوت میں گری ہے صدا خیموں پہ چھائی خامشی، اور دلوں پہ غم کی ردا پیاسے لب، آنکھیں تر، پر زبان پر شکر کا نغمہ کربلا بتا رہا ہے، صبر کسے کہتے ہیں، وفا کیا ہے عباس کی نگاہ میں آج بھی وفا کا جلال ہے اور زینبؑ کے دل میں صبر کا جمال ہے نو محرم کا ہر لمحہ، اک چراغ بن کے جلتا ہے جو حق کے رستے کو ظلمت میں بھی روشن رکھتا ہے یہ دن ہے صبر کا، قربانی کا، خاموشی کی پکار کا یہ دن ہے بچوں کی بھوک کا، ماں کے انتظار کا زمین کانپتی ہے، آسمان بھی سجدے میں ہے کربلا فقط ایک واقعہ نہیں، یہ دلوں کی تربیت ہے
آواز تک اٹھا نہ سکے میرے واسطے کیسے گرے ہوؤں کا مقدّر رہا ہوں میں لازم ہے آسمان کرے مجھ سے گفتگو خاموش اتنے سال زمیں پر رہا ہوں میں اے حسنِ خوش گمان! ، ہوس بھی ہے کوئی شے کچھ سوچ کے تمہاری مدد کر رہا ہوں میں اچھے برے کا فیصلہ کرتے رہیں گے لوگ یہ شعر نذرِ اہلِ نظر کر رہا ہوں میں
جو کم سے بھی کمتر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ تو جس کو میسر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ یہ شخص کسی اور زمانے میں بھی ہوگا آیئنہ برابر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ میں لخت جگر دست پدر کا ہوں نوالہ جس ہاتھ میں خنجر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ یوں سیپ کے سینے میں کھنکتا ہوا مصرع موتی ہے کہ کنکر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ پتھر کے زمانے سے یہی کانچ کا دل ہے صحرا میں کبوتر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ عمار اقبال
تیری باتوں میں وہ نرمی ہے جو اکثر کہی اور نہیں ملتی خود کو کبھی آئینے میں مت دیکھنا تیری آنکھوں میں جو عکس ہے، وہ کہیں اور نہیں یہ جو تُو ہے نا… یہ بس تُو ہے — باقی سب صرف موجودگی ہے
خامشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے جو لفظوں سے زیادہ بیاں ہوتی ہے جہاں صدا نہ ہو، وہاں راز چھپے جہاں آنکھیں بولیں، وہاں دل جُڑے یہ جو رات ہے، یہ فقط اندھیرا نہیں یہ روح کی تنہائی کا گہرا بسیرا نہیں؟ تم سنو، اگر دل کی گہرائی میں اتر جاؤ تو ہر خاموش لمحہ صدیوں کی صدا بن جائے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain