Damadam.pk
SIL3NT_S0UL's posts | Damadam

SIL3NT_S0UL's posts:

SIL3NT_S0UL
 

یزید صرف تلوار سے ظلم نہیں کر رہا تھا، بلکہ دین کو بگاڑ رہا تھا۔
حسینؑ نے سکوت توڑا اور اعلان کیا:
> ❝ میں ظالم کے خلاف قیام اس لیے کر رہا ہوں کہ امت محمد ﷺ کو جگا سکوں۔ ❞
> ⭐ خاموشی ظالم کی ہمت بنتی ہے، اور حق کی موت۔ حسینؑ کا پیغام ہے: چپ مت رہو!

SIL3NT_S0UL
 

کربلا صرف ایک جنگ نہیں، بلکہ ایک نظامِ حق اور باطل کے ٹکراؤ کا نام ہے۔
یزید طاقت، سیاست، جبر اور دھوکے کی علامت تھا۔
حسینؓ صبر، تقویٰ، صداقت اور عشقِ الٰہی کی علامت تھے۔
امام حسینؓ نے سر کٹوا دیا، مگر ظلم کو تسلیم نہ کیا۔ یہی وہ قربانی ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا۔

SIL3NT_S0UL
 

خون میں ڈوبا ہوا سورج، کربلا کی شام ہے
اک طرف نیزے کھڑے ہیں، اک طرف اسلام ہے
پیاس کی شدت بھی ہے، خیمے بھی جلتے گئے
پھر بھی لب پر صبر ہے، دل میں فقط حق کا علم ہے
سجدہ کر کے سر دیا، پر جھکایا نہ کبھی
یہ حسینؑ ابنِ علیؑ ہے، فخرِ آلِ نبیؐ
ننھے اصغرؑ کا لہو، کتنا پکارا آسمان
میرے بابا کو نہ دو، تم وفا کا یہ نشان
عباسؑ کے بازو کٹے، پر وفا کو مات دی
کربلا نے آج پھر، صبر کو اک ذات دی
سوچتا ہے وقت بھی، کیسے جیتا ہے حسینؑ؟
سر کٹا، تن بے کفن، پھر بھی زندہ ہے حسینؑ!

باطل کے سامنے سر نہیں جھکانا
حق کے لیے قربانی سے نہ گھبرانا
خود کو دین کی خدمت میں پیش کرنا
S  : باطل کے سامنے سر نہیں جھکانا حق کے لیے قربانی سے نہ گھبرانا خود کو دین کی - 
SIL3NT_S0UL
 

محرم کی شام ہے، سکوت میں گری ہے صدا
خیموں پہ چھائی خامشی، اور دلوں پہ غم کی ردا
پیاسے لب، آنکھیں تر، پر زبان پر شکر کا نغمہ
کربلا بتا رہا ہے، صبر کسے کہتے ہیں، وفا کیا ہے
عباس کی نگاہ میں آج بھی وفا کا جلال ہے
اور زینبؑ کے دل میں صبر کا جمال ہے
نو محرم کا ہر لمحہ، اک چراغ بن کے جلتا ہے
جو حق کے رستے کو ظلمت میں بھی روشن رکھتا ہے
یہ دن ہے صبر کا، قربانی کا، خاموشی کی پکار کا
یہ دن ہے بچوں کی بھوک کا، ماں کے انتظار کا
زمین کانپتی ہے، آسمان بھی سجدے میں ہے
کربلا فقط ایک واقعہ نہیں، یہ دلوں کی تربیت ہے

نہ کوئی صدا، نہ کوئی خواب ادھورا
بس سکون، جیسے صدیوں کا سفر تھما ہوا
S  : نہ کوئی صدا، نہ کوئی خواب ادھورا بس سکون، جیسے صدیوں کا سفر تھما ہوا - 
SIL3NT_S0UL
 

شہرِآشوب سے اِک خواب نگر ہونے تک
عشق مشغولِ فنا ، نقشِ اَمَر ہونے تک
حُسن کی مست نگاہی کے کرشمے توبہ
اِک نظر کافی ہے جگنو کو قمر ہونے تک

SIL3NT_S0UL
 

آواز تک اٹھا نہ سکے میرے واسطے
کیسے گرے ہوؤں کا مقدّر رہا ہوں میں
لازم ہے آسمان کرے مجھ سے گفتگو
خاموش اتنے سال زمیں پر رہا ہوں میں
اے حسنِ خوش گمان! ، ہوس بھی ہے کوئی شے
کچھ سوچ کے تمہاری مدد کر رہا ہوں میں
اچھے برے کا فیصلہ کرتے رہیں گے لوگ
یہ شعر نذرِ اہلِ نظر کر رہا ہوں میں

SIL3NT_S0UL
 

جو کم سے بھی کمتر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
تو جس کو میسر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
یہ شخص کسی اور زمانے میں بھی ہوگا
آیئنہ برابر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
میں لخت جگر دست پدر کا ہوں نوالہ
جس ہاتھ میں خنجر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
یوں سیپ کے سینے میں کھنکتا ہوا مصرع
موتی ہے کہ کنکر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
پتھر کے زمانے سے یہی کانچ کا دل ہے
صحرا میں کبوتر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
عمار اقبال

SIL3NT_S0UL
 

تیری باتوں میں وہ نرمی ہے
جو اکثر کہی اور نہیں ملتی
خود کو کبھی آئینے میں مت دیکھنا
تیری آنکھوں میں جو عکس ہے، وہ کہیں اور نہیں
یہ جو تُو ہے نا…
یہ بس تُو ہے — باقی سب صرف موجودگی ہے

خوشی ملی تو نیند نہ آئی،
غم ملا تو چائے مزیدار لگنے لگی۔
S  : خوشی ملی تو نیند نہ آئی، غم ملا تو چائے مزیدار لگنے لگی۔ - 
SIL3NT_S0UL
 

خامشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے
جو لفظوں سے زیادہ بیاں ہوتی ہے
جہاں صدا نہ ہو، وہاں راز چھپے
جہاں آنکھیں بولیں، وہاں دل جُڑے
یہ جو رات ہے، یہ فقط اندھیرا نہیں
یہ روح کی تنہائی کا گہرا بسیرا نہیں؟
تم سنو، اگر دل کی گہرائی میں اتر جاؤ
تو ہر خاموش لمحہ صدیوں کی صدا بن جائے

SIL3NT_S0UL
 

لاعلمی کے پردے میں چھپی ہر بات دیکھی ہے،
خود اپنی ہی ذات میں، گم ایک کائنات دیکھی ہے۔
---
جو جانا، وہی کم لگا، جو نہ جانا، وہی سچا،
اک لمحہ بےعلمی کا، سب سے بڑی سوغات دیکھی ہے۔
---
میں لفظ ڈھونڈتا رہا، سوال کے اندھیرے میں،
مگر سکوت کی گلی میں رب کی کوئی بات دیکھی ہے۔
---
عالم تھے سب، پر دل خالی، چہرے روشن، آنکھیں ساکت،
فقیر کے کُنج میں، بس خامشی کی زکات دیکھی ہے۔
---
لاعلمی ہی اصل ہے، یہ جانا جب دل ٹوٹا،
ادھوری سی دانائی میں اک تکلیف کی ذات دیکھی ہے۔
🕯🕯😴🕯🕯

SIL3NT_S0UL
 

خودی کی آنچ میں جلنا پڑا مجھے،
تب جا کے جاں سے ملنا پڑا مجھے۔
---
نظر کو جب اٹھایا تھا آسمان کی سمت،
پہلے زمیں سے نکلنا پڑا مجھے۔
---
ہر ایک صدا تھی باہر، سکوت تھا اندر،
خود اپنے دل میں چلنا پڑا مجھے۔
---
خودی میں گم تھا، اور دنیا خدا بنی،
اسی بت کو ہی ڈھلنا پڑا مجھے۔
---
جو اپنے آپ کو پہچان پایا، وہی جیا،
مجھے بھی خود سے ملنا پڑا مجھے۔

SIL3NT_S0UL
 

وقت کے ساتھ انسان بدلتا رہا ہے،
خود کو بھول کر دنیا میں چلتا رہا ہے۔
---
جو کل تک تھا خاموش، آج فیصلہ سنائے،
ہر لمحہ کسی چہرے سے ڈرتا رہا ہے۔
---
وقت نے سکون مانگا، شور میں دیا اُس نے،
اور پھر سوالوں میں ہی الجھتا رہا ہے۔
---
اپنی خواہشوں کو ہی خدا کر لیا اُس نے،
پھر بھی ہر دعا میں کچھ نہ کچھ مانگتا رہا ہے۔
---
وقت نے دکھایا آئینہ، پر وہ نہ رُکا،
منزل پہ پہنچ کر بھی بھٹکتا رہا ہے۔
---
چند دن کا راہی ہے، مگر فخر بے حساب،
قبر کی دہلیز پہ بھی اُکڑتا رہا ہے۔

SIL3NT_S0UL
 

انسان کی فطرت ہے، بھول جانا بھی سیکھ لینا،
چاہت میں جھکنا، طاقت میں دل توڑ دینا،
آئینہ دیکھے تو خود کو فرشتہ سمجھے،
مگر دوسروں کو ترازو میں تول دینا۔

SIL3NT_S0UL
 

جاتا کہاں عدمؔ! مَیں خرابات کے سِوا
بَندوں سے بَدگُماں تھا، خُدا سے ڈرا ہُوا.

SIL3NT_S0UL
 

رشتوں میں انسان کو چُنو، انا کو نہیں، رشتے تب جیتتے ہیں جب دونوں جھکنا جانتے ہوں!

SIL3NT_S0UL
 

پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے
تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے میری نیند اڑا رکھی ہے
کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو
تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے
تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے
تو نے خوشبو میرے لہجے میں چھپا رکھی ہے
خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں
خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے

پھول مرجھا کے کہہ گیا، "حسن کا اعتبار نہیں"،
کل جو گلاب تھا، آج مٹی کا غبار نہیں؟
S  : پھول مرجھا کے کہہ گیا، "حسن کا اعتبار نہیں"، کل جو گلاب تھا، آج مٹی کا غبار -