بےنور محفل میں چھپے ہیں رنگِ وصال کے فسوں،
طلسمِ خیال میں گھُرا ہوا ہے ہر جُزءِ وصال،
پوشیدہ ہے رازِ حیات کے مرے الفاظ میں،
کسی صدیف کی مانند ٹوٹتے ہیں دل کے کمال۔
ظاہر نے پردۂ رنگ و بو میں خود کو سجا لیا،
باطن نے خاموشی میں اپنا عالَم بسا لیا۔
اک نقش تھا جو نگاہ میں محدود لگتا تھا،
باطن نے دیکھا تو وہی لا مکاں ٹھہرا۔
ظاہر نے عقل سے راہِ یقیں تراشی،
باطن نے دل میں سوزِ نہاں سے خدا تراشا۔
ظاہر کو حرف و صُورت میں قیدِ خیال ملی،
باطن کو سجدۂ بے وقت میں وصال ملا۔
آخر صدا آئی —
"جو ظاہر میں کھو گیا، وہ باطن سے جُدا ہوا،
جو باطن میں مٹ گیا، وہ حقیقت بن گیا۔"
🕯🕯🕯😴🕯🕯🕯
میں وقت کے دھاگے میں الجھا ہوا خیال ہوں،
نہ آغاز میرا کوئی، نہ انجام کا ملال ہوں۔
سناٹے کے لبوں پر میرا نام لکھا ہے،
میں وہ صدا ہوں جو کبھی کہی نہ گئی۔
میرے اندر اک سمندر ہے،
جس کی موجیں سکوت میں چیختی ہیں۔
میں خود سے فرار چاہوں بھی تو کہاں جاؤں،
میرا سایہ بھی مجھ میں پناہ لیتا ہے۔
اندھیرا بولتا ہے، میں سنتا ہوں،
کچھ صدائیں ہیں جو دل کے اندر گونجتی ہیں۔
دیواروں پر سایے رینگتے ہیں دھیرے دھیرے،
جیسے کوئی پوشیدہ راز بیدار ہوتا ہے۔
میں خود سے فرار چاہتا ہوں مگر —
اپنی ہی سانسوں کی چاپ پیچھا کرتی ہے۔
یہ تنہائی قبر نہیں، دروازہ ہے —
جہاں ڈر کے اُس پار، خدا ملتا ہے۔
بَدن میں اُتریں تھکن کے سائے تو نیند آئے
یہ دِل، کہانی کوئی سُنائے تو نیند آئے
بُجھی بُجھی رات کی ہتھیلی پہ مُسکرا کر
چراغِ وعدہ، کوئی جلائے تو نیند آئے
ہَوا کی خواہش پہ کون آنکھیں اُجاڑتا ہے
دِیے کی لَو خود سے تھر تھرائے تو نیند آئے
تمام شب جاگتی خموشی نے اُس کو سوچا
وہ زیرِ لب گیت کوئی گنگنائے تو نیند آئے
بَس ایک آنسو بہت ہے مُحسنؔ کے جاگنے کو
یہ اِک سِتارہ، کوئی بُجھائے تو نیند آئے
گوشہ نشــــــــین شخص تری ہر جھلک کی خیر
عالم ترس رہے ہیں انہیں ! جـــــــا ! دکھائی دے
لہجہ حسین شخص کا منـظر سے کم نہیں
قصہ کرے بیـــان تو قــــــصہ دکھائی دے..!!
یہ کائنات کے رنگوں میں بھید اپنی جگہ
تری نظر کے سیاہ و سفید اپنی جگہ
کسی کنارے تو آخر لگانا پڑتی ہے
تعلقات کی ناؤ میں چھید اپنی جگہ
ناز کرتے ہیں وہ ہر ناز پہ یہ کہہ کہہ کر
اس کو کہتے ہیں ادا اور ادا کونسی ہے
اف نہ کی ہم نے تہِ تیغِ جفا اے ظالم
اس سے بڑھ کر رہ تسلیم و رضا کونسی ہے
موت ہی زندگی ہجر اجل رشک رقیب
اور عشاق کی مرنے کو قضا کونسی ہے
مجھ کو معلوم تھا کہ میں اور سنور جاؤں گا
گھـر سـے نکلوں گا تو ہر سمت بکھـر جاؤں گا
راز موجوں کــے سمنـدر نـے بتائـے ہیں مجھـے
میں یہاں ڈوبوں گا تو کہیں اور اُبھر جاؤں گا
ابھی تو سَستاؤں گا کچھ دیر اسی دوراہے پر
بعد میں سوچوں گا دیکھوں گا کدھر جاؤں گا
میں تو برزخ کے اندھیروں میں جلاؤں گا چراغ
میں نہیں وہ کـہ جو موت آئی تو مَــر جاؤں گا
زندگی! یوں تو تجھے رہنے نہیں دوں گا بـے رنگ
میں تیری تصویر میں کچھ رنگ تو بھر جاؤں گا
وقت سب کو بدلتا ہے، مگر سمجھ کم کو دیتا ہے،
جو ٹھوکر سے نہ سیکھے، نصیحت بھی کیا دیتا ہے۔
غرورِ دولت، جوانی، سب مٹ جاتے ہیں اک دن،
جو انسانیت میں جیتا ہے، وہی نام رکھتا ہے۔
دلوں پہ راج کرو تو بادشاہت قائم ہے،
زمین پہ راج کر کے بھی، انسان خالی رہتا ہے۔
بدلتے لہجوں میں کبھی دعا کی نرمی تھی،
کبھی عشق کی خوشبو، کبھی جدائی کی شرمی تھی۔
لفظ وہی مگر معنی بدلتے گئے،
ہونٹ مسکرائے مگر دل جلتے گئے۔
کسی نے محبت میں خُدا کو ڈھونڈ لیا،
کسی نے خُدا کے نام پر دھوکا دے دیا۔
وقت نے سکھا دیا — لہجے پہ مت جانا،
کبھی عشق میں زہر، کبھی زہر میں افسانہ۔
خواب، حجابِ نَور ہے — جو آنکھوں کو روشن مگر دل کو غافل رکھتا ہے،
حقیقت، وہ جلوہ ہے جو دل کو جلا کر فنا میں زندہ کرتا ہے۔
خواب میں کثرت نظر آتی ہے،
حقیقت میں وحدت جلوہ گر ہوتی ہے۔
خواب میں “میں” دیکھنے والی آنکھ ہے،
حقیقت میں “وہی” ہے جو دیکھتا بھی ہے، دکھاتا بھی ہے۔
خواب، سفرِ طلب ہے —
حقیقت، مقامِ وصل۔
اور جب طلب فنا میں ڈوب جائے،
تو خواب حقیقت بن جاتا ہے۔
خواب کہتے ہیں دل کی خاموش فریادیں،
جو آنکھوں میں چمک بن کر اترتی ہیں۔
حقیقت وہ آئینہ ہے،
جو ان خوابوں کو آزماتا ہے، پرکھتا ہے۔
خواب میں ہم اڑتے ہیں،
حقیقت ہمیں زمین سے جوڑتی ہے۔
مگر سچ یہ ہے —
کہ خوابوں کے بغیر حقیقت اندھی ہے،
اور حقیقت کے بغیر خواب، صرف فریب۔
دھوپ اور سایہ کے بیچ گم ہے اک دنیا،
جہاں سکون کی سرگوشی ہے خاموش و سنّا۔
نہ کوئی حس، نہ کوئی رنگ، نہ کوئی صورت،
بس دل کی محفل میں چمکتی ہے وہ صورت۔
جب فنا کی گہرائی میں بسا ہو نورِ ذات،
تب سکون ملے گا روح کو، وہی ہے ذات۔
فنا کے رَستے پہ اک چراغ جلایا میں نے،
خود کو مِٹّا کے، خُدا کو پایا میں نے۔
عشقِ بشر نے دیا غُبار کا تحفہ،
دل کے مزار پہ نُور سجایا میں نے۔
جو چہرہ دیکھا، وہ عکسِ حق نکلا،
سرّ ِوصال کا راز سنایا میں نے۔
میں تھا کہاں؟ یہ سوال مٹ ہی گیا،
جب "میں" کو "وہ" میں سمایا میں نے۔
اب ہر نفس میں وہی صدا گونجے،
"لا مَوجودَ اِلّا ھُو" دوہرایا میں نے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain