حُکم تیرا ہے تو تَعمِیل کِیے دیتے ہیں، زِندَگی ہِجَر میں تَحلِیل کِیے دیتے ہیں، تُو مَیری وَصل کی خواہِش پہ بِگَڑتا کِیُوں ہے، راستَہ ہی ہے چَلو تَبدِیل کِیے دیتے ہیں، آج سَب اَشکوں کو آنکھوں کے کِنارے پہ بُلاؤ، آج اِس ہِجَر کی تَکمِیل کِیے دیتے ہیں، ہَم جو ہَنستے ہُوئے اَچھّے نَہِیں لَگتے تُم کو،... تُو حُکم کَر آنکھ اَبھی جھِیل کِیے دیتے ہیں...!
تم کو ہماری چال کی "چ" تک نہیں پتہ تم پھنس گئے ہو جال میں یہ تک نہیں پتہ یہ عین شین قاف بھلا کیا کرو گے تم تم کو تو پیار کی ابھی "پ" تک نہیں پتہ دکھ درد میں نبھاؤ گے تم ساتھ کس طرح تم کو ہمارے حال کی "ح" تک نہیں پتہ رکھوالی اور پہرے میں کچھ فرق ہوتا ہے اس فرق کی تم ایسوں کو "ف" تک نہیں پتہ ہم کو ترے مزاج کی پت جھڑ نے کھا لیا ہم کو کسی بہار کی "ب" تک نہیں پتہ کیا خاک سمجھو گے مری آنکھوں کا خالی پن ان رتجگوں کی تم کو تو "ر" تک نہیں پتہ ہم مبتلائے عشق تھے سو مبتلا رہے ہم کو کسی فرار کی "ف" تک نہیں پتہ
میں کچھ بھی پوچھے بغیر اُٹھ کے آگیا واپس سمجھ گیا تھا اُسے دیکھ کر، جواب ہی ہے! ہماری اُونگھ ، کبھی نیند تک گئی ہی نہیں سو خواب دیکھنا، تاحال ایک خواب ہی ہے ھم ایک ہاتھ کی دُوری پہ، ساتھ پھرتے ہیں وہ دَسترس میں نہیں ھے، وہ دستیاب ہی ہے تیری طلب اگر آسُودگی ہے، رب راکھا ہمارے پاس تو لے دے کے، اِضطراب ہی ہے
خاموش لمحوں میں بھی تیری باتیں ہوتی ہیں، بے آواز سانسوں میں کچھ ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ تنہا فضا میں گونجتی تیری ہنسی کی بازگشت، یادوں کی راہوں میں کچھ خوشبو کی سوغاتیں ہوتی ہیں۔ دل سے نکل کر دل تک پہنچتی ہیں کچھ صدائیں، چپ رہ کر بھی ہم میں کچھ باتیں ہوتی ہیں۔ نہ لب ہلتے ہیں، نہ آنکھ کچھ کہتی ہے، پھر بھی نگاہوں میں تری حکایاتیں ہوتی ہیں۔ چاندنی راتیں بھی تجھے سنبھالے پھرتی ہیں، تیرے بِن بھی دل کی کچھ عبادتیں ہوتی ہیں۔ کبھی دھوپ میں، کبھی سائے میں، ہر لمحے تیری کچھ یادیں ساتھیں ہوتی ہیں۔
دوستی وہ آئینہ ہے جس میں صرف دل دکھائی دیتا ہے، چہرہ نہیں، چال نہیں، صرف نیت بولتی ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جو زبان سے نہیں، دعا سے جڑتا ہے، اور جب رب جوڑ دے… تو دوری بھی قربت لگتی ہے۔
ذرا سا ہجر کی وحشت کو کم کیا جائے کہ ہم پہ سورہ ء یٰسیں کا دم کیا جائے سوال پوچھ کے سب لوگ جان کھا لیں گے سمجھ کے ، سوچ کے ، آنکھوں کو نم کیا جائے ہوائیں منزلیں بھٹکانے آئیں گی ساری کہ زادِ راہ کو نقشِ قدم کیا جائے کبھی بھی جراتِ گفتار کم نہیں ہوگی مری زبان کو چاہے قلم کیا جائے ہمیں تو مسئلے لاحق ہیں رزق کے اور تو یہ چاہتا ہے محبت کا غم کیا جائے
یزید صرف تلوار سے ظلم نہیں کر رہا تھا، بلکہ دین کو بگاڑ رہا تھا۔ حسینؑ نے سکوت توڑا اور اعلان کیا: > ❝ میں ظالم کے خلاف قیام اس لیے کر رہا ہوں کہ امت محمد ﷺ کو جگا سکوں۔ ❞ > ⭐ خاموشی ظالم کی ہمت بنتی ہے، اور حق کی موت۔ حسینؑ کا پیغام ہے: چپ مت رہو!
کربلا صرف ایک جنگ نہیں، بلکہ ایک نظامِ حق اور باطل کے ٹکراؤ کا نام ہے۔ یزید طاقت، سیاست، جبر اور دھوکے کی علامت تھا۔ حسینؓ صبر، تقویٰ، صداقت اور عشقِ الٰہی کی علامت تھے۔ امام حسینؓ نے سر کٹوا دیا، مگر ظلم کو تسلیم نہ کیا۔ یہی وہ قربانی ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا۔
خون میں ڈوبا ہوا سورج، کربلا کی شام ہے اک طرف نیزے کھڑے ہیں، اک طرف اسلام ہے پیاس کی شدت بھی ہے، خیمے بھی جلتے گئے پھر بھی لب پر صبر ہے، دل میں فقط حق کا علم ہے سجدہ کر کے سر دیا، پر جھکایا نہ کبھی یہ حسینؑ ابنِ علیؑ ہے، فخرِ آلِ نبیؐ ننھے اصغرؑ کا لہو، کتنا پکارا آسمان میرے بابا کو نہ دو، تم وفا کا یہ نشان عباسؑ کے بازو کٹے، پر وفا کو مات دی کربلا نے آج پھر، صبر کو اک ذات دی سوچتا ہے وقت بھی، کیسے جیتا ہے حسینؑ؟ سر کٹا، تن بے کفن، پھر بھی زندہ ہے حسینؑ!
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain