یزید صرف تلوار سے ظلم نہیں کر رہا تھا، بلکہ دین کو بگاڑ رہا تھا۔
حسینؑ نے سکوت توڑا اور اعلان کیا:
> ❝ میں ظالم کے خلاف قیام اس لیے کر رہا ہوں کہ امت محمد ﷺ کو جگا سکوں۔ ❞
> ⭐ خاموشی ظالم کی ہمت بنتی ہے، اور حق کی موت۔ حسینؑ کا پیغام ہے: چپ مت رہو!
کربلا صرف ایک جنگ نہیں، بلکہ ایک نظامِ حق اور باطل کے ٹکراؤ کا نام ہے۔
یزید طاقت، سیاست، جبر اور دھوکے کی علامت تھا۔
حسینؓ صبر، تقویٰ، صداقت اور عشقِ الٰہی کی علامت تھے۔
امام حسینؓ نے سر کٹوا دیا، مگر ظلم کو تسلیم نہ کیا۔ یہی وہ قربانی ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا۔
خون میں ڈوبا ہوا سورج، کربلا کی شام ہے
اک طرف نیزے کھڑے ہیں، اک طرف اسلام ہے
پیاس کی شدت بھی ہے، خیمے بھی جلتے گئے
پھر بھی لب پر صبر ہے، دل میں فقط حق کا علم ہے
سجدہ کر کے سر دیا، پر جھکایا نہ کبھی
یہ حسینؑ ابنِ علیؑ ہے، فخرِ آلِ نبیؐ
ننھے اصغرؑ کا لہو، کتنا پکارا آسمان
میرے بابا کو نہ دو، تم وفا کا یہ نشان
عباسؑ کے بازو کٹے، پر وفا کو مات دی
کربلا نے آج پھر، صبر کو اک ذات دی
سوچتا ہے وقت بھی، کیسے جیتا ہے حسینؑ؟
سر کٹا، تن بے کفن، پھر بھی زندہ ہے حسینؑ!

محرم کی شام ہے، سکوت میں گری ہے صدا
خیموں پہ چھائی خامشی، اور دلوں پہ غم کی ردا
پیاسے لب، آنکھیں تر، پر زبان پر شکر کا نغمہ
کربلا بتا رہا ہے، صبر کسے کہتے ہیں، وفا کیا ہے
عباس کی نگاہ میں آج بھی وفا کا جلال ہے
اور زینبؑ کے دل میں صبر کا جمال ہے
نو محرم کا ہر لمحہ، اک چراغ بن کے جلتا ہے
جو حق کے رستے کو ظلمت میں بھی روشن رکھتا ہے
یہ دن ہے صبر کا، قربانی کا، خاموشی کی پکار کا
یہ دن ہے بچوں کی بھوک کا، ماں کے انتظار کا
زمین کانپتی ہے، آسمان بھی سجدے میں ہے
کربلا فقط ایک واقعہ نہیں، یہ دلوں کی تربیت ہے

شہرِآشوب سے اِک خواب نگر ہونے تک
عشق مشغولِ فنا ، نقشِ اَمَر ہونے تک
حُسن کی مست نگاہی کے کرشمے توبہ
اِک نظر کافی ہے جگنو کو قمر ہونے تک
آواز تک اٹھا نہ سکے میرے واسطے
کیسے گرے ہوؤں کا مقدّر رہا ہوں میں
لازم ہے آسمان کرے مجھ سے گفتگو
خاموش اتنے سال زمیں پر رہا ہوں میں
اے حسنِ خوش گمان! ، ہوس بھی ہے کوئی شے
کچھ سوچ کے تمہاری مدد کر رہا ہوں میں
اچھے برے کا فیصلہ کرتے رہیں گے لوگ
یہ شعر نذرِ اہلِ نظر کر رہا ہوں میں
جو کم سے بھی کمتر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
تو جس کو میسر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
یہ شخص کسی اور زمانے میں بھی ہوگا
آیئنہ برابر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
میں لخت جگر دست پدر کا ہوں نوالہ
جس ہاتھ میں خنجر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
یوں سیپ کے سینے میں کھنکتا ہوا مصرع
موتی ہے کہ کنکر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
پتھر کے زمانے سے یہی کانچ کا دل ہے
صحرا میں کبوتر ہے اُسے دیکھ مجھے دیکھ
عمار اقبال
تیری باتوں میں وہ نرمی ہے
جو اکثر کہی اور نہیں ملتی
خود کو کبھی آئینے میں مت دیکھنا
تیری آنکھوں میں جو عکس ہے، وہ کہیں اور نہیں
یہ جو تُو ہے نا…
یہ بس تُو ہے — باقی سب صرف موجودگی ہے

خامشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے
جو لفظوں سے زیادہ بیاں ہوتی ہے
جہاں صدا نہ ہو، وہاں راز چھپے
جہاں آنکھیں بولیں، وہاں دل جُڑے
یہ جو رات ہے، یہ فقط اندھیرا نہیں
یہ روح کی تنہائی کا گہرا بسیرا نہیں؟
تم سنو، اگر دل کی گہرائی میں اتر جاؤ
تو ہر خاموش لمحہ صدیوں کی صدا بن جائے
لاعلمی کے پردے میں چھپی ہر بات دیکھی ہے،
خود اپنی ہی ذات میں، گم ایک کائنات دیکھی ہے۔
---
جو جانا، وہی کم لگا، جو نہ جانا، وہی سچا،
اک لمحہ بےعلمی کا، سب سے بڑی سوغات دیکھی ہے۔
---
میں لفظ ڈھونڈتا رہا، سوال کے اندھیرے میں،
مگر سکوت کی گلی میں رب کی کوئی بات دیکھی ہے۔
---
عالم تھے سب، پر دل خالی، چہرے روشن، آنکھیں ساکت،
فقیر کے کُنج میں، بس خامشی کی زکات دیکھی ہے۔
---
لاعلمی ہی اصل ہے، یہ جانا جب دل ٹوٹا،
ادھوری سی دانائی میں اک تکلیف کی ذات دیکھی ہے۔
🕯🕯😴🕯🕯
خودی کی آنچ میں جلنا پڑا مجھے،
تب جا کے جاں سے ملنا پڑا مجھے۔
---
نظر کو جب اٹھایا تھا آسمان کی سمت،
پہلے زمیں سے نکلنا پڑا مجھے۔
---
ہر ایک صدا تھی باہر، سکوت تھا اندر،
خود اپنے دل میں چلنا پڑا مجھے۔
---
خودی میں گم تھا، اور دنیا خدا بنی،
اسی بت کو ہی ڈھلنا پڑا مجھے۔
---
جو اپنے آپ کو پہچان پایا، وہی جیا،
مجھے بھی خود سے ملنا پڑا مجھے۔
وقت کے ساتھ انسان بدلتا رہا ہے،
خود کو بھول کر دنیا میں چلتا رہا ہے۔
---
جو کل تک تھا خاموش، آج فیصلہ سنائے،
ہر لمحہ کسی چہرے سے ڈرتا رہا ہے۔
---
وقت نے سکون مانگا، شور میں دیا اُس نے،
اور پھر سوالوں میں ہی الجھتا رہا ہے۔
---
اپنی خواہشوں کو ہی خدا کر لیا اُس نے،
پھر بھی ہر دعا میں کچھ نہ کچھ مانگتا رہا ہے۔
---
وقت نے دکھایا آئینہ، پر وہ نہ رُکا،
منزل پہ پہنچ کر بھی بھٹکتا رہا ہے۔
---
چند دن کا راہی ہے، مگر فخر بے حساب،
قبر کی دہلیز پہ بھی اُکڑتا رہا ہے۔
انسان کی فطرت ہے، بھول جانا بھی سیکھ لینا،
چاہت میں جھکنا، طاقت میں دل توڑ دینا،
آئینہ دیکھے تو خود کو فرشتہ سمجھے،
مگر دوسروں کو ترازو میں تول دینا۔
جاتا کہاں عدمؔ! مَیں خرابات کے سِوا
بَندوں سے بَدگُماں تھا، خُدا سے ڈرا ہُوا.
رشتوں میں انسان کو چُنو، انا کو نہیں، رشتے تب جیتتے ہیں جب دونوں جھکنا جانتے ہوں!
پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے
ایک بادل سے بڑی آس لگا رکھی ہے
تیری آنکھوں کی کشش کیسے تجھے سمجھاؤں
ان چراغوں نے میری نیند اڑا رکھی ہے
کیوں نہ آ جائے مہکنے کا ہنر لفظوں کو
تیری چٹھی جو کتابوں میں چھپا رکھی ہے
تیری باتوں کو چھپانا نہیں آتا مجھ سے
تو نے خوشبو میرے لہجے میں چھپا رکھی ہے
خود کو تنہا نہ سمجھ لینا نئے دیوانوں
خاک صحراؤں کی ہم نے بھی اڑا رکھی ہے

submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain