راضی رہیں گے اس کی رضا پر اسی طرح
کہنا پڑے نہ اس کو ، دوبارہ کہ اب نہیں
چھوڑا ہے جب سے اس نے وہ انداز ِالتفات
ہم نے بھی کر لیا ہے کنارہ ، کہ اب نہیں
ایسی غُربت تھی محبت کے دِنوں میں ہم پر
اُس سے ملنے کے بھی اَسباب نہیں ہوتے تھے
اتنے بے رنگ جوانی کے تھے وہ سال کہ جب
آنکھیں ہوتی تھیں مگر خواب نہیں ہوتے تھے
*کسی زندہ شخص کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لانا ،
اسکے مرنے کے بعد اسکی قبر پر ہزاروں پھولوں کے گلدستے رکھنے سے بہتر ہے*
ایک سودائی کسی دوست کا شجرہ تھامے
پُوچھتا پھرتا تھا بدذات کسے کہتے ہیں
حال اُس کو اپنے دِل کا بتایا تو کیا ہُوا
افسانۂ فِراق سُنایا تو کیا ہُوا
احباب نے جو اُس سے مِلایا تو کیا ہُوا
سویا ہُوا یہ درد جگایا تو کیا ہُوا
آنکھوں پہ اب بھی مُجھ کو بٹھاتا ہے اِک جہاں
تُو نے نظر سے اپنی گِرایا تو کیا ہُوا
مِل جائے گا کوئی تو وفا آشنا ہمیں
اُس کو وفا شناس نہ پایا تو کیا ہُوا
میں نے بھی دِل سے تیری محبّت نکال دی
تُو نے جو میرا پیار بُھلایا تو کیا ہُوا
وہ ہو گئے ہیں وقف زمانے کے واسطے
سب کُچھ جو اُن پہ ہم نے لُٹایا تو کیا ہُوا
پہلے ہی اِک جہاں کا ستایا ہُوا تھا مَیں
تُو نے مُجھے جو اور ستایا تو کیا ہُوا
تحریر میں یہ کَرب نشانی ہے یار کی
الفاظ میں یہ درد سمایا تو کیا ہُوا
وہ تو جفا کی راہ سے جامیؔ نہ ہَٹ سکا
تُو نے وفا کا قول نبھایا تو کیا ہُوا۔
بڑے تحمل سے، رفتہ رفتہ، نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ، نکالنا ہے
یہ روح برسوں سے دفن ہے، تم مدد کرو گے؟
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے، خرچہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
یہ تیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
خیال ہے خاندان کو اطلاع دے دوں
جو کٹ گیا اس شجر کا شجرہ نکالنا ہے
میں ایک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلم کار!
مجھے کہانی میں ڈال، غصہ نکالنا ہے
آئینہ متواتر دیکھنے سے کبھی یوں بھی تو ہو
اداس کھڑا یہ شخص میرے گلے سے آ لگے🙂
انکار کی لذت سے نہ اقرارِ جنوں سے
یہ ہجر کھلا مُجھ پہ کسی اور فسوں سے
یہ جان چلی جائے مگر آنچ نہ آئے
آدابِ محبت پہ، کسی حرفِ جنوں سے
عُجلت مِیں نہیں ہو گی تلاوت ترے رُخ کی
آ بیٹھ مرے پاس ذرا دیر سکوں سے
قفسِ زِنداں میں تیری یاد کا کاسہ لے کر
ہِجر کے دیپ جَلاتے ہیں٬ جِدھر جاتے ہیں
تم کو ہے راس، کسی وَصل کا کاندھا لیکن گُل
لوگ جو دِل سے اُترتے ہیں٬ کِدھر جاتے ہیں
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
رُتوں کے ساتھ دلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں
ہوا کے ساتھ ہوا کی امانتیں بھی گئیں
تیرے کہے ہوئے لفظوں کی راکھ کیا چھیڑیں
ہمارے اپنے قلم کی صداقتیں بھی گئیں
جو آئے جی میں پکارو مجھے مگر یوں ہے
کہ اُس کے ساتھ اُس کی محبتیں بھی گئیں
عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تھے وحشتیں بھی گئیں
یہ کیسی نیند میں ڈوبے ہیں آدمی امجد
کہ ہار تھک کےگھروں سے قیامتیں بھی گئیں
رکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئنے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا
محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا
اپنے وحشت زدہ کمرے کی اک الماری میں
تیری تصویر عقیدت سے سجا رکھی ہے
یادش بخیر، جب وہ تصوّر میں آ گیا
شعر و شباب و حُسن کا دریا بَہا گیا
جب عِشق، اپنے مرکزِ اصلی پہ آ گیا !
خود بن گیا حَسِین، دو عالَم پہ چھا گیا
جو دِل کا راز تھا اُسے کُچھ دِل ہی پا گیا
وہ کر سکے بَیاں، نہ ہَمِیں سے کہا گیا
ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اُڑا گیا
خو ش فکر تھا ، کہ صاف یہ پہلُو بچا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دِل !
ہم وہ نہیں، کہ جن کو زمانہ بنا گیا
دِل بن گیا نِگاہ، نِگہ بن گئی زباں
آج اِک سکوتِ شوق، قیامت ہی ڈھا گیا
میرا کمالِ شعر بس اِتنا ہے، اے جگؔر !
وہ مجھ پہ چھا گئے، مَیں زمانے پہ چھا گیا
کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں
موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
ہم سے مخفی نہیں کچھ راہگزرِ شوق کا حال
ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور
ایسی لذّت نہ پہنچنے میں نہ رہ جانے میں
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھو
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
ضبطِ گریہ پہ کوئ حد تو نہیں لگتی ناں
اشک پینے سے یہ روزہ تو نہیں ٹُوٹے گا؟
ہماری پیاس نے دریا کا طنز سنتے ہی
سفالِ صبر میں بھر کے لہو اچھال دیا
*دِلِِ فَسُردہ میں ، پھر دَھڑکنوں کا شور اُٹھا*
*یہ بیٹھے بیٹھے ، مجھے کن دِنوں کی یاد آئی*
دیکھو یہ میرے خواب ہے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain