Damadam.pk
Sadlarka11's posts | Damadam

Sadlarka11's posts:

Sadlarka11
 

راضی رہیں گے اس کی رضا پر اسی طرح
کہنا پڑے نہ اس کو ، دوبارہ کہ اب نہیں
چھوڑا ہے جب سے اس نے وہ انداز ِالتفات
ہم نے بھی کر لیا ہے کنارہ ، کہ اب نہیں

Sadlarka11
 

ایسی غُربت تھی محبت کے دِنوں میں ہم پر
اُس سے ملنے کے بھی اَسباب نہیں ہوتے تھے
اتنے بے رنگ جوانی کے تھے وہ سال کہ جب
آنکھیں ہوتی تھیں مگر خواب نہیں ہوتے تھے

Sadlarka11
 

*کسی زندہ شخص کے چہرے پر ایک مسکراہٹ لانا ،
اسکے مرنے کے بعد اسکی قبر پر ہزاروں پھولوں کے گلدستے رکھنے سے بہتر ہے*

Sadlarka11
 

ایک سودائی کسی دوست کا شجرہ تھامے
پُوچھتا پھرتا تھا بدذات کسے کہتے ہیں

Sadlarka11
 

حال اُس کو اپنے دِل کا بتایا تو کیا ہُوا
افسانۂ فِراق سُنایا تو کیا ہُوا
احباب نے جو اُس سے مِلایا تو کیا ہُوا
سویا ہُوا یہ درد جگایا تو کیا ہُوا
آنکھوں پہ اب بھی مُجھ کو بٹھاتا ہے اِک جہاں
تُو نے نظر سے اپنی گِرایا تو کیا ہُوا
مِل جائے گا کوئی تو وفا آشنا ہمیں
اُس کو وفا شناس نہ پایا تو کیا ہُوا
میں نے بھی دِل سے تیری محبّت نکال دی
تُو نے جو میرا پیار بُھلایا تو کیا ہُوا
وہ ہو گئے ہیں وقف زمانے کے واسطے
سب کُچھ جو اُن پہ ہم نے لُٹایا تو کیا ہُوا
پہلے ہی اِک جہاں کا ستایا ہُوا تھا مَیں
تُو نے مُجھے جو اور ستایا تو کیا ہُوا
تحریر میں یہ کَرب نشانی ہے یار کی
الفاظ میں یہ درد سمایا تو کیا ہُوا
وہ تو جفا کی راہ سے جامیؔ نہ ہَٹ سکا
تُو نے وفا کا قول نبھایا تو کیا ہُوا۔

Sadlarka11
 

بڑے تحمل سے، رفتہ رفتہ، نکالنا ہے
بچا ہے جو تجھ میں میرا حصہ، نکالنا ہے
یہ روح برسوں سے دفن ہے، تم مدد کرو گے؟
بدن کے ملبے سے اس کو زندہ نکالنا ہے
نظر میں رکھنا کہیں کوئی غم شناس گاہک
مجھے سخن بیچنا ہے، خرچہ نکالنا ہے
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
یہ تیس برسوں سے کچھ برس پیچھے چل رہی ہے
مجھے گھڑی کا خراب پرزہ نکالنا ہے
خیال ہے خاندان کو اطلاع دے دوں
جو کٹ گیا اس شجر کا شجرہ نکالنا ہے
میں ایک کردار سے بڑا تنگ ہوں قلم کار!
مجھے کہانی میں ڈال، غصہ نکالنا ہے

Sadlarka11
 

آئینہ متواتر دیکھنے سے کبھی یوں بھی تو ہو
اداس کھڑا یہ شخص میرے گلے سے آ لگے🙂

Sadlarka11
 

انکار کی لذت سے نہ اقرارِ جنوں سے
یہ ہجر کھلا مُجھ پہ کسی اور فسوں سے
یہ جان چلی جائے مگر آنچ نہ آئے
آدابِ محبت پہ، کسی حرفِ جنوں سے
عُجلت مِیں نہیں ہو گی تلاوت ترے رُخ کی
آ بیٹھ مرے پاس ذرا دیر سکوں سے

Sadlarka11
 

قفسِ زِنداں میں تیری یاد کا کاسہ لے کر
ہِجر کے دیپ جَلاتے ہیں٬ جِدھر جاتے ہیں
تم کو ہے راس، کسی وَصل کا کاندھا لیکن گُل
لوگ جو دِل سے اُترتے ہیں٬ کِدھر جاتے ہیں

Sadlarka11
 

دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں

Sadlarka11
 

رُتوں کے ساتھ دلوں کی وہ حالتیں بھی گئیں
ہوا کے ساتھ ہوا کی امانتیں بھی گئیں
تیرے کہے ہوئے لفظوں کی راکھ کیا چھیڑیں
ہمارے اپنے قلم کی صداقتیں بھی گئیں
جو آئے جی میں پکارو مجھے مگر یوں ہے
کہ اُس کے ساتھ اُس کی محبتیں بھی گئیں
عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تھے وحشتیں بھی گئیں
یہ کیسی نیند میں ڈوبے ہیں آدمی امجد
کہ ہار تھک کےگھروں سے قیامتیں بھی گئیں

Sadlarka11
 

رکھنا مت پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا
کسی بھی آئنے میں دیر تک چہرہ نہیں رہتا
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا
جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
ہزاروں شعر میرے سو گئے کاغذ کی قبروں میں
عجب ماں ہوں کوئی بچہ مرا زندہ نہیں رہتا
محبت ایک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا

Sadlarka11
 

اپنے وحشت زدہ کمرے کی اک الماری میں
تیری تصویر عقیدت سے سجا رکھی ہے

Sadlarka11
 

یادش بخیر، جب وہ تصوّر میں آ گیا
شعر و شباب و حُسن کا دریا بَہا گیا
جب عِشق، اپنے مرکزِ اصلی پہ آ گیا !
خود بن گیا حَسِین، دو عالَم پہ چھا گیا
جو دِل کا راز تھا اُسے کُچھ دِل ہی پا گیا
وہ کر سکے بَیاں، نہ ہَمِیں سے کہا گیا
ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اُڑا گیا
خو ش فکر تھا ، کہ صاف یہ پہلُو بچا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دِل !
ہم وہ نہیں، کہ جن کو زمانہ بنا گیا
دِل بن گیا نِگاہ، نِگہ بن گئی زباں
آج اِک سکوتِ شوق، قیامت ہی ڈھا گیا
میرا کمالِ شعر بس اِتنا ہے، اے جگؔر !
وہ مجھ پہ چھا گئے، مَیں زمانے پہ چھا گیا

Sadlarka11
 

کہیں امید سی ہے دل کے نہاں خانے میں
ابھی کچھ وقت لگے گا اسے سمجھانے میں
موسمِ گل ہو کہ پت چھڑ ہو بلا سے اپنی
ہم کہ شامل ہیں نہ کھلنے میں نہ مرجھانے میں
ہم سے مخفی نہیں کچھ راہگزرِ شوق کا حال
ہم نے اک عمر گزاری ہے ہوا خانے میں
ہے یوں ہی گھومتے رہنے کا مزا ہی کچھ اور
ایسی لذّت نہ پہنچنے میں نہ رہ جانے میں
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
موسموں کا کوئی محرم ہو تو اس سے پوچھو
کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں

Sadlarka11
 

آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا
محبوب کا گھر ہو کہ بزرگوں کی زمینیں
جو چھوڑ دیا پھر اسے مڑ کر نہیں دیکھا
خط ایسا لکھا ہے کہ نگینے سے جڑے ہیں
وہ ہاتھ کہ جس نے کوئی زیور نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا

Sadlarka11
 

ضبطِ گریہ پہ کوئ حد تو نہیں لگتی ناں
اشک پینے سے یہ روزہ تو نہیں ٹُوٹے گا؟

Sadlarka11
 

ہماری پیاس نے دریا کا طنز سنتے ہی
سفالِ صبر میں بھر کے لہو اچھال دیا

Sadlarka11
 

*دِلِِ فَسُردہ میں ، پھر دَھڑکنوں کا شور اُٹھا*
*یہ بیٹھے بیٹھے ، مجھے کن دِنوں کی یاد آئی*

Sadlarka11
 

دیکھو یہ میرے خواب ہے، دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حساب جاں بر سر عام رکھ دیا