aj se DD ana bi bnd.... 🙃
ابھی ہیں قرب کے کچھ اور مرحلے باقی
کہ تجھ کو پا کے ہمیں پھر تری تمنا ہے
✍️ : تابشؔ دہلوی
(یوم وفات 23 ستمبر 2004)
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
تاڑنے والےقیامت کی نظر رکھتے ہیں
لالہ مادھو رام جوہر فرخ آبادی
فاصلے ایسے کہ اک عمر میں طے ہو نہ سکیں
قربتیں ایسی کہ خود مجھ میں جنم ہے اس کا
✍️ : باقرؔ مہدی
(یوم وفات 23 ستمبر 2006)
آنے کا وعدہ اُن کے نہ آنے کی تھی دلیل
آخر کھُلی یہ بات بڑے انتظار پر
مست بنارسی
ناصح تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے ، یوں ہے
ایڈمن رانا صفدر
نصیر آخر عداوت کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں
کسی بیمار کو زنجیر پہنائی نہیں جاتی
پیر نصیرالدین نصیر
اس ڈر سےمیں قمیض کبھی جھاڑتا نہیں
کب جانے آستین سے احباب گر پڑیں
جاگیں تو احتیاط سے پلکوں کو کھولئے
ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے کچھ خواب گر پڑیں
اتنا بھی مت بڑھائیے رخت سفر کہ کل
جب پوٹلی اٹھائیں تو اسباب گر پڑیں
رہنے بھی دیں نہ منہ مرا کھلوائیے جناب
ایسا نہ ہو کہ آپ کے القاب گر پڑیں
راجیش ریڈی ✍️
رنجِ فراقِ یار میں ،،، رُسوا نہیں ہُوا
اِتنا مَیں چُپ ہُوا کہ تماشا نہیں ہُوا
ایسا سفر ہے‘ جس میں کوئی ہمسفر نہیں
رستہ ہے اِس طرح کا‘ جو دیکھا نہیں ہُوا
مُشکل ہُوا ہے رہنا ہمیں اِس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں یہ اپنا نہیں ہُوا
وُہ کام شاہِ شہر سے ‘ یا شہر سے ہُوا
جو کام بھی ہُوا ہے ، وُہ اچھا نہیں ہُوا
مِلنا تھا ایک بار اُسے پھر کہِیں مُنیرؔ
ایسا مَیں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہُوا
مُنیرؔ نیازی ²⁰⁰⁶-¹⁹²⁷
مجموعۂ کلام : (ایک مُسلسل)
پھر یقیں کی بساط پر تجھ سے
ہم بہت اعتماد سے ہارے
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
فیض احمد فیض
اب لگتا ہے ٹھیک کہا تھا غالب نے
بڑھتے بڑھتے درد، دوا ہو جاتا ہے
کہیں پہ باندھ کے دھاگے کہیں دعا کر کے
وہ مان جائے گا لیکن خدا خدا کر کے
اے مجھ کو آخری منزل پہ چھوڑنے والے
کہاں گئے ہو محبت کی ابتدا کر کے
میں چاہتا تھا کہ پت جھڑ کا بھی مزہ چکھوں
وہ مجھ کو چھوڑ گیا ہے ہرا بھرا کر کے
مزاجِ یار کے بالکل خلاف ہے لیکن
کسی کے ساتھ تو دیکھے نہ وہ وفا کر کے
مرے نصیب میں وہ شخص تو نہیں زاہد
میں دیکھ لیتا ہوں اک بار پھر دعا کر کے
كُنْتَ سَاكِنِي ٱلْخَاصَّ فِي جَانِبِي ٱلْأَيْسَرِ
تُم میرے بائیں جانب کے خاص مُقیم ہو ۔۔❤
کوئی پوچھے وفا سےکہومحبت کیسی ہے
سمیٹ کر خود کو کہوں حرارت جیسی ہے
چاہتوں میں ہوتا ہے کیسا دل کا دھڑکنا بتاؤ
کسی چلبلبی حسینہ کی شرارت جیسی ہے
مل نہ سکے اگر چاہنے والا ہمسفر ہوتا ہے کیا
تھکن سے چور جسموں کی نکاہت جیسی ہے
شاعرہ وفا
مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک
مجھے ہوا سے بچائے رکھو سویرے تک
مجھے قبول ہیں یہ گردشیں تہ دل سے
رہیں جو صرف ترے بازوؤں کے گھیرے تک
سڑک پہ سوئے ہوئے آدمی کو سونے دو
وہ خواب میں تو پہنچ جائے گا بسیرے تک
تھکا ہوا ہوں مگر اس قدر نہیں کہ شعورؔ
لگا سکوں نہ اب اس کی گلی کے پھیرے تک
: انور شعور
تُو نے بِچھڑ کر اپنے سَر اِلزام لے لِیا
وَرنہ فَراز کا تو یہ رونا سَدا کا تھا
احمد فراز
خون ہو جائیں خاک میں مل جائیں
حضرتِ دل سے کچھ بعید نہیں
✍️ : بیخودؔ بدایونی
(یوم پیدائش 17 ستمبر 1857)
بنا ہوا ہے اندھیرے کی خاک سے تو بھی
چراغ اتارتا رہتا ہے طاق سے تو بھی
مری بھی توبہ کرائی تھی اس محبت نے
لکیریں کھینچے گا اک روز ناک سے تو بھی
مہر فام
امید پہ قائم ہے یہ دنیا تو پھر اس میں
مجھ کو ترے ہونے کا سہارا بھی بہت ہے
جی چاہتا ہے تُو کرے اظہار ِ محبت
ویسے تو مجھے ایک اشارہ بھی بہت ہے ♡
رانا عامر لیاقت
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain