اک لفظ تسلّی مرے حصے میں نہ آیا
اے ذوقِ سماعت لبِ جاناں سے گلہ ہے
: صباؔ اکبر آبادی
(یوم وفات 29 اکتوبر 1991)
کچھ نہ کچھ بولتے رہو ہم سے
چپ رہو_گے تو لوگ سن لیں_گے
فہمی بدایونی
بس اتنی سچائی سے جیئیں کہ جب کوئی آپ سے یہ کہے کہ تمھیں تمھارے کئیے کا پھل ضرور ملے گا،
تو وہ ”دعا لگے بد دعا نہیں“.
وقت تُم کو وہ بـہاریـں بخشـے جن کـے لیـے تُم نـے مُجھ کو خِــزاں کیا
اس نے تعبیر سے_______نوازا ہے
خواب صدیوں سے جو ادھورا تھا
: زبیر قیصر
تو دیکھ لینا ہمارے بچوں
کے بال جلدی سفید ہونگے
ہماری چھوڑی ہوئی اداسی سے سات نسلیں اداس ہونگی
دانشؔ نقوی
زندگی کس طرح بسر ہوگی
دل نہیں لگ رہا محبت میں
جون ایلیا
دل تو ہے دل، دل کا اعتبار کیا کیجیے
آ گیا جو کسی پہ پیار کیا کیجیے
میری عمر کا خسارہ پوچھتے ہیں
یعنی مجھ سے لوگ
تمہارا پوچھتے ہیں
میں بتاتا ہوں میرا تعلق نہیں رہا ان سے
انہیں یقین نہیں آتا، وہ
دوبارہ پوچھتے ہیں
اشفاق احمد صایم
میں جو ہوں.....! وہ ہونے کی
اداکاری بھی نہیں کر سکتے آپ!
مسیحا آپ ہیں زیرِ علاج، حیرت ہے
یہ کُوئے عشق کے اُلٹے رواج، حیرت ہے
مِرے دماغ کی بابت بزرگ کہتے ہیں
ذرا سے کھیت میں اتنا اناج، حیرت ہے
میں سخت سہل پسند آدمی تھا، لیکن اب
برائے عشق مِرے کام کاج، حیرت ہے
'ہمارے ہاں تو 'جو روٹھے اسے مناتے ہیں
تمہارے ہاں نہیں ایسا رواج، حیرت ہے
فراز! دل بھی دُکھاتے ہو اور چاہتے ہو
ضمیر بھی نہ کرے احتجاج، حیرت ہے
فراز محمود فارز
مُسکرانے کے ارادے اے خُمارؔ
بارہا اشکوں میں ڈھل کر رہ گئے
✍️ : خمار بارہ بنکویؔ
ہوش اڑ جائیں گے اے زلف پریشاں تیرے
گر میں احوال لکھا اپنی پریشانی کا
: مصحفی غلام ہمدانی
ہُوا سُکوں بھی مُیسّر تو اضطراب رہا
دلِ خراب ہمیشہ دلِ خراب رہا __ 🖤
سلیم احمد
خالی سینے میں دھڑکتے ہوئے آوازے سے
بھر گئی عمر مری سانس کے خمیازے سے
منتظر ہی نہ رہا بامِ تمنا پہ کوئی
اور ہوا آ کے گزرتی رہی دروازے سے
شامِ صد رنگ مرے آئینہ خانے میں ٹہھر
میں نے تصویر بنانی ہے ترے غازے سے
اور کچھ ہاتھ نہ آیا تو مری آنکھوں نے
چُن لیے خواب ہی بکھرے ہوئے شیرازے سے
مقصود وفا
اچھا ہوا کہ ترکِ تعلق ہی کر لیا
آنکھوں کو انتظار کی زحمت نہیں رہی
✍️ : رخسارؔ ناظم آبادی
ہجر و وصال کی سردی گرمی سہتا ہے
دل درویش ہے پھر بھی راضی رہتا ہے
: ظہیرؔ کاشمیری
زندگانی نوحہ ہے
ان تمام لمحوں کا
جن میں تم ضروری تھے
اور کہیں نہیں تھے تم
پھر تمہاری چوکھٹ پر
پھول رکھ گیا کوئی؟
پھر تمہاری آنکھوں میں
خواب دَھر گیا کوئی؟
پھر کسی کی چاہت پر
اعتبار آیا ہے؟
پھر سے میرےحصے میں
انتظار آیا ہے؟
فریحہ نقوی
کسے کہیں کہ رفاقت کا داغ ہے دل پر
بچھڑنے والا تو کھل کر کبھی ملا ہی نہ تھا
: پروفیسر ڈاکٹر اسلمؔ انصاری
(یوم وفات 22 اکتوبر 2024)
بہادری کا فسانہ بھی رائیگاں ہی گیا
ترا تو اگلا نشانہ بھی رائیگاں ہی گیا
نہ کوئی زوق رفاقت نہ کوئی رسم ستم
وہ دلبری کا زمانہ بھی رائیگاں ہی گیا
ذرا سا آنکھ اٹھی اور نمی دکھائی دی
ہمارا ہنسنا ہنسانا بھی رائیگاں ہی گیا
بجھا دئیے ہیں مرے یک بہ یک تمام چراغ
ہوا سے ہاتھ ملانا بھی رائیگاں ہی گیا
سماعتوں پہ لگے قفل کھل نہیں پائے
ہمارا شور مچانا بھی رائیگاں ہی گیا
کومل جوئیہ
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain