صوفی تجھے خبر ھی نہیں رازِ عشق کی آنا ہمارے پاس کبھی ہـــــــــم بتائیں گے ہــم خـود بتائیں گے تمہیں اپنی بـرائیاں وہ اس لئے کہ لوگ تمہیں کــم بتائیں گے
کوئی دَرد سُوغات خیرات کر اُجاڑ دے ھاں مُجھے ذلیل رُسوا کَم ذات کر اُجاڑ دے !! میں خوشی سے اَب اُکتا رھا ھوں دیکھ میری زندگی میں کوئی حادثات کر اُجاڑ دے !! کِنارہ کشِی پہ جو اُترا میں زمانے سے بربادی کی میاں جَلد شروعات کر اُجاڑ دے !!
تمھاری چھٹی حس کا لوگوں سے دوری کی ضرورت محسوس کرنا، خاموشی کی طرف مائل ھونا، گفتگو سے بیزار رہنا تمھارا یہ سوچنا کہ "یہ" یا "وہ" کرنا تمھارے لیے ضروری نہیں ھے تو سمجھ جاؤ یہ سب چیزیں یونہی فالتو میں نہیں ہیں ان کو اپنالو ...!!
اب کون کہے تم سے تم رات میں لوٹ آتے اور رات بدل جاتی اب کون کہے تم سے تم بات تو کر لیتے ھر بات بدل جاتی اب کون کہے تم سے میں جذب تمہیں کرتا اور ذات بدل جاتی
کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی رات بھر پھرتا ھے اس شہر میں سایا کوئی فکر یہ تھی کہ شبِ ہجر کٹے گی کیوں کر لطف یہ ھے کہ ہمیں یاد نہ آیا کوئی شوق یہ تھا کہ محبت میں جلیں گے چپ چاپ رنج یہ ھے کہ تماشا نہ دکھایا کوئی شہر میں ہمدمِ دیرینہ بہت تھے ناصر وقت پڑنے پہ مرے کام نہ آیا کوئی ناصر کاظمی
مرے وجود کو بے خدوخال کرتا ھوا یہ ترا شہر ھے مجھ کو نڈھال کرتا ھوا یہ خون ھے مرے اپنوں کا غیر کا تو نہیں تمام شہر کی گلیوں کو لال کرتا ھوا میرا خدا مرے سب حوصلوں سے واقف ھے وہ غم بھی دے گا مری دیکھ بھال کرتا ھوا قدم قدم پہ مجھے روکتا ھے کچھ ایسے نظر نظر میں ہزاروں سوال کرتا ھوا ذرا سا چھو کے برنگِ صبا گزر گیا وہ ہمارے عارض ولب کو نہال کرتا ھوا اسی لیے تو سنبھلنا ھے ہم کو اب سید چلے گا وقت ہمیں پائمال کرتا ھوا ثمینہ سید
نبھا کے لائی ھوں اب تک بچا کے لائی ھوں اب تک وہ ایک رشتہ ناپید سا جو شروع میں گلال جیسا تھا گویا کہ موسمِ بہار جیسا تھا پتنگ کی اُڑان جیسا تھا کُھلے آسمان جیسا تھا دھنک کے رنگ جیسا تھا کسی امید جیسا تھا خدا پہ یقین جیسا تھا بچا کے لائی ھوں اب تک مگر دیکھا ھے میں نے جب کسی دہلیز پہ تم کو مشورہ دے رھے تھے تم برباد کرو تو یوں کرو تو جان گئی ھوں میں اب کیوں میں ھوں اب مرجھائی سی میں ھوں کسی ہرجائی کی