گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا گلاب قیمت شگفت شام تک چکا سکے ادا وہ دھوپ کو ہوا جو قرض بھی صبا کا تھا بکھر گیا ہے پھول تو ہمیں سے پوچھ گچھ ہوئی حساب باغباں سے ہے کیا دھرا ہوا کا تھا لہو چشیدہ ہاتھ اس نے چوم کر دکھا دیا جزا وہاں ملی جہاں کہ مرحلہ سزا کا تھا جو بارشوں سے قبل اپنا رزق گھر میں بھر چکا وہ شہر مور سے نہ تھا پہ دوربیں بلا کا تھا
فطرت کو خرد کے روبرو تسخیر مقام رنگ و بو کر تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر تاروں کی فضا ہے بیکرانہ تو بھی یہ مقام آرزو کر عریاں ہیں ترے چمن کی حوریں چاک گل و لالہ کو رفو کر بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر
صبر کے لفافوں میں ـــــــــــ.. ہم نے تیرے وعدوں کو ـــــــــــ.. تہہ بہ تہہ کر کے جوڑ جوڑ رکھا ھے کوئی حصہ بستر پر ـــــــــــ.. کوئی ٹُکڑا ٹیرس پر ـــــــــــ.. ہم نے تیری یادوں کو توڑ توڑ رکھا ھے جن صفحوں پہ ذکر ہے ـــــــــــ.. تیرے میرے ملنے کا ـــــــــــ.. ڈائری کے ان ورقوں کو موڑ موڑ رکھا ھے
کمی ذرا سی اگر فاصلے میں آ جائے وہ شخص پھر سے مرے رابطے میں آ جائے اسے کرید رہا ہوں طرح طرح سے کہ وہ جہت جہت سے مرے جائزے میں آ جائے کمال جب ہے کہ سنورے وہ اپنے درپن میں اور اس کا عکس مرے آئینے میں آ جائے