ہم حسین ہونے کادعوہ تو نہیں کرتے مگرہاں وصی ؔ جسے آنکھ بھرکردیکھ لیں اسے الجھن میں ڈا ل دیتے ہیں۔
اس نے شرما کے میرے سوالات پر
ایسے گردن جھکا ئی مزہ آ گیا۔
کسی مسیحا کو بلا ؤ کہ میرا ایمان سمبھا ل
پھر دیکھ لیا آ ج اس نے محبت کی نظر سے۔
یہ جو نظروں سے تم میرے دل کو نڈ ھا ل کرتے ہو
کرتے تو ظلم ہو صا حب ! مگر کمال کرتے ہو۔
بات با ت پہ مسکراتے کیو ں بار بار
جان لینے کے طر یقے تو اور بھی ہیں۔
،ہاے آداب محبت کے تقاضے ساغر۔ بس زرا سے لب ،ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا۔
اس کا جلوہ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا وعدۂ دید قیامت پہ نہ ٹالا ہوتا بام پر تھے وہ کھڑے لطف دوبالا ہوتا مجھ کو بھی دل نے اچھل کر جو اچھالا ہوتا کیسے خوش رنگ ہیں زخم جگر و داغ جگر ہم دکھاتے جو کوئی دیکھنے والا ہوتا دل نہ سنبھلا تھا اگر دیکھ کے جلوہ اس کا تو نے اے درد جگر اٹھ کے سنبھالا ہوتا تم جو پردے میں سنورتے ہو نتیجہ کیا ہے لطف جب تھا کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا تم نے ارمان ہمارا نہ نکالا نہ سہی اپنے خنجر کا تو ارمان نکالا ہوتا دل کے ہاتھوں نہ ملا چین کسی روز جلیلؔ ایسے دشمن کو نہ آغوش میں پالا ہوتا جلیل مانک پور
ذرا خاموش بیٹھو تو_ دم آرام سے نکلے
اِدھر میں ہچکی لیتا ہوں اُدھر تم رونے لگتی ہو

ﺟﻨﮩﯿﮟ __ ﺍﺣﺴﺎﺱ ____ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ...
ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ _ ﮔِﻠﮯ ﮐﯿﺴﮯ _ ﺷِﮑﻮﮮ ﮐﯿﺴﮯ . . . .










submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain