راہ سے ہجر کی دیوار ہٹانے کے لئے ہاتھ بھی جوڑ دئے اُس کو منانے کے لئے اپنی خاطر تو کبھی جی کے نہیں دیکھ سکے عُمر سب ہم نے بسر کی ہے زمانے کے لئے موسمِ ہجر کرے روز ہی رونے کی طلب آنکھ میں اشک نہیں اب کہ بہانے کے لئے قیمتی چیز محبت تھی سو برباد ہوئی پاس اب کچھ بھی نہیں یار، بچانے کے لئے اس قدر گھیر کے رکھا ہے اُداسی نے مجھے صرف ہنستا ہوں میں تصویر کھچانے کے لئے گھر کے ہر فرد کی خاہش کا لئے بوجھ اسد ہم کو آنا پڑا پردیس کمانے کے لئے