تم سے جو میری جانِ جاں تھیں فارہہ کون تھیں تم اور کہاں تھی فارہہ ہوں میں اب اور اک جہانِ نا شناس تم ہی بس میرا خیال تھیں فارہہ کیا ہوا وہ رودِ خوابِ جاں کہ تم جس میں دست و پا زناں تھیں فارہہ میں غریقِ رودِ زہرِ ناب ہوں تم جو تھیں نوشیں زباں تھیں فارہہ