اور مت بھولیں آپ بھی انسان ہیں فرشتہ نہیں آپ نے بھی مرنا ہے اور آپ کے بارے میں بھی لوگ ایسے ہی پھر بولیں گے اور انسان کو اسکے کام سے نہیں اسکی نیت کے بدلے جنّت ملے گی اسلئے تنگ دلی سے نہیں اعلی ظرفی سے کام لیں اور مرحوم کی بخشش کی دعا کریں ہمیں بھی اسکی بہت ضرورت درپیش ہو گی
اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری۔۔۔!! احمد فراز
عیاں ہوئ بڑی شدت سے بے بسی مجھ پر جب اس نے طنز کی تلوار کھینچ لی مجھ پر بچھڑنے والے بھلا کس طرح بتاؤں تمہیں تمہارے بعد جچی ہے جو سادگی مجھ پر غموں کی دھوپ میں ابرٍ سخن امڈ آیا غزل کی شکل میں برسی ہے شاعری مجھ پر میں غم چھپا کے لطیفے سنا رہا تھا اسے ہنسی ہنسی میں ہنسی بھی بہت ہنسی مجھ پر پھر ایک دن اسے آنس معین ملوایا جتائے جاتی تھی احسان زندگی مجھ پر اور اس کے بعد تھکن کے حوالے ختم ہوے تھکی ہوئ کوئ دیوار آ گری مجھ پر ہزاروں بھیس بدل کر بھی نا مراد رہا مرے خدا تری دنیا نہیں کھلی مجھ پر جناب راکب مختار