مشینوں کے اشاروں پر یہ پروائی نہیں چلتی خدا کے سامنے دانا کی دانائی نہیں چلتی جہاں کی چیز ہوتی ہے وہیں لگتی ہے وہ اچھی گلے پر لکھنوی کرتے کے یہ ٹائی نہیں چلتی غزل کی شاعری فلموں کی تک بندی سے بد تر ہے ہمارے دور میں غزلوں میں گہرائی نہیں چلتی سیاست نے کیا ہے معتبر تھالی کے بینگن کو یہاں پر جھوٹ ہی چلتا ہے سچائی نہیں چلتی کسی سے جب جہاں میں وقت نظریں پھیر لیتا ہے اٹھنّی بھی چونی میں مرے بھائی نہیں چلتی یہ نفرت اور یہ سود و زیاں ذہنوں میں رہنے دو دلوں کے آئینوں پر بغض کی کائی نہیں چلتی لباسوں میں نہیں ہے اب محبت کی مہک علوی کسی کرتے میں اب ململ کے ترپائی نہیں چلتی
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain