کیسے چھپاؤں راز غم دیدۂ تر کو کیا کروں دل کی تپش کو کیا کروں سوز جگر کو کیا کروں شورش عاشقی کہاں اور میری سادگی کہاں حسن کو تیرے کیا کہوں اپنی نظر کو کیا کروں غم کا نہ دل میں ہو گزر وصل کی شب ہو یوں بسر سب یہ قبول ہے مگر خوف سحر کو کیا کروں حال میرا تھا جب بتر تب نہ ہوئی تمہیں خبر بعد میرے ہوا اثر اب میں اثر کو کیا کروں