مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِ بزم رات یہ کیا ہوا میری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ بُرا ہوا میری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں ابھی روشنی ابھی تیرگی نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پُختہ کار جفا مِلا نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا تیر خطا ہوا مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے میری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا جو نظر بچا کے گزر گئے میرے سامنے سے ابھی ابھی یہ میرے ہی شہر کے لوگ تھے میرے گھر سے گھر ہے مِلا ہوا ہمیں اِس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا مجھے اِک گلی میں پڑا ہوا کسی بد نصیب کا خط مِلا کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مِٹا ہوا
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا کہیں ممکن ہوا کہیں واجب کہیں فانی کہیں بقا دیکھا کہیں وہ بادشاہِ تخت نشیں کہیں کاسا لیئے گدا دیکھا کر کے دعویٰ اناالحق کا برسر دار وہ کھنچا دیکھا کہیں وہ در لباسِ معشوقہ بر سر ناز و ادا دیکھا صورت گل میں کھلکھلا کہ ہنسا شکلِ بلبل میں چہچہا دیکھا کہیں عابد بنا کہیں زاہد کہیں رندوں کا پیشوا دیکھا کہیں عاشق نیاز کی صورت سینہ بریان و دل جلا دیکھا