یہ پچھلے سال کی ہے بات جب سن 20 آیا تھا بہت سے دوستوں کےسنگ خوشیوں سے منایا تھا مگر پھر مارچ میں دنیا کو کورونا نے آ پکڑا کہ ملنا ہو گیا مشکل وبا نے اس طرح جکڑا ہمیں تھی کیا خبر کچھ دوست ہم سے روٹھ جائینگے ہمیشہ کے لئے پھر ساتھ انکے چھوٹ جائینگے خدا اس سال نو میں اس وبا کو دور کر دیجے رحم کیجے ہماری یہ دعا منظور کر لیجے دوا جو جرمنی سے آ ی ہے اس میں شفا دیجے جو ہیں بیمار انکو صحت کامل عطا کیجے آپ اپنے فضل سے ساری خطاؤں سے بچا لیجے بڑھا کر نیکیاں سبکے گناہوں کو مٹا دیجے یہ دنیا عارضی ہے اور یہاں ہر چیز فانی ہے گناہوں سے بچا لے چار دن کی زندگانی ہے شہر کی رونقیں لوٹ آئیں ہم سب شاد ہو جا ئیں مساجد جو بھی ہیں ویران پھر آباد ہو جائیں
بھولنا جب بھی تجھ کو چاہا ہے تو مرے پاس لوٹ آیا ہے مجھ کو درکار اپنی تھی مدحت اس طلب میں ہی سب گنوایا ہے اس کو ڈھونڈا گلی گلی میں نے وہ جو دل میں مرے سمایا ہے تو بنے گا مرا ہی بالآخر دل کو اس بات پر منایا ہے ہے عجب راستہ محبت کا جس پہ نہ پیڑ ہے نہ سایہ ہے
ادا سے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے مری قضا کو وہ لائے دلہن بنائے ہوئے الٰہی کیوں نہیں ہوتی کوئی بلا نازل اثر ہے دیر سے دست دعا اٹھائے ہوئے تری لگائی ہوئی آگ حشر تک نہ بجھی ہوئے نہ مر کے بھی ٹھنڈے ترے جلائے ہوئے بلائے جاں ہے مگر پھر بھی آرزو ہے تری ہم اس کو اپنے کلیجے سے ہیں لگائے ہوئے سحر ہوئی کہ وہ یادش بخیر آتا ہے چراغ ہیں مری تربت کے جھلملائے ہوئے تمہیں کہو کہ تمہیں اپنا سمجھ کے کیا پایا مگر یہی کہ جو اپنے تھے سب پرائے ہوئے کسی کا ہائے وہ مقتل میں اس طرح آنا نظر بچائے ہوئے آستیں چڑھائے ہوئے اجل کو مژدۂ فرصت کہ آج فانیؔ زار امید وصل سے بیٹھا ہے لو لگائے ہوئے