آنکھ اُٹھاتا ہُوں تو ہَٹ جاتے ہیں دِن تِرے دھیان میں کَٹ جاتے ہیں اَبرِ اَندیشہ بکھرتا ہی نہیں اور بادل ہیں جو چَھٹ جاتے ہیں کِسی بے نام ہَوا کے جَھونکے دَرد کی تان پَلٹ جاتے ہیں زَلزلے ہیں کہ تُمہاری یادیں دھیان کے شہر اُلٹ جاتے ہیں ذائقے بَن کے پُرانے موسم میرے تالُو سے چمٹ جاتے ہیں کون منزل کا سَفر ہے دَرپیش راستے راہ سے ہَٹ جاتے ہیں ہاتھ کاغذ پہ دَھرے بیٹھا ہُوں شعر آ آ کے پَلٹ جاتے ہیں
آگہی میں اک خلا موجود ہے اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے بانکپن میں اور کوئی شے نہیں سادگی کی انتہا موجود ہے ہے مکمل بادشاہی کی دلیل گھر میں گر اک بوریا موجود ہے شوقیہ کوئی نہیں ہوتا غلط اس میں کچھ تیری رضا موجود ہے اس لیے تنہا ہوں میں گرم سفر قافلے میں رہنما موجود ہے ہر محبت کی بنا ہے چاشنی ہر لگن میں مدعا موجود ہے ہر جگہ ہر شہر ہر اقلیم میں دھوم ہے اس کی جو ناموجود ہے جس سے چھپنا چاہتا ہوں میں عدمؔ وہ ستم گر جا بہ جا موجود ہے
آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر تنہا تو تڑپنے سے بچا لے کوئی آ کر صحرا میں اگا ہوں کہ مری چھاؤں کوئی پائے ہلتا ہوں کہ پتوں کی ہوا لے کوئی آ کر بکتا تو نہیں ہوں نہ مرے دام بہت ہیں رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا لے کوئی آ کر کشتی ہوں مجھے کوئی کنارے سے تو کھولے طوفاں کے ہی کر جائے حوالے کوئی آ کر جب کھینچ لیا ہے مجھے میدان ستم میں دل کھول کے حسرت بھی نکالے کوئی آ کر دو چار خراشوں سے ہو تسکین جفا کیا شیشہ ہوں تو پتھر پہ اچھالے کوئی آ کر میرے کسی احسان کا بدلہ نہ چکائے اپنی ہی وفاؤں کا صلہ لے کوئی آ کر
ہوا سنکے تو خاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے مرے غم کی بہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے نہ چھیڑ اے ہم نشیں اب زیست کے مایوس نغموں کو کہ اب بربط کے تاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے مجھے اے کثرت آلام بس اتنی شکایت ہے کہ میرے غم گساروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے کہو موجوں سے لہرا کر نہ یوں پلٹیں سمندر سے کہ با غیرت کناروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے گلے ملتے ہیں جب آپس میں دو بچھڑے ہوئے ساتھی عدمؔ ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے