جس کو دیکھو اسے دعوی ہے شناسائی کا بھید سمجھا نہ کوئی اس بت ِ ہرجائی کا سب میں موجود ہے اور پھر بھی ہے سب سے جدا کیا عجب ڈھنگ ہے اس یار کی یکتائی کا ایک پل بھی وہ جُدا میرے تصور سےنہیں کتنا احساس ہے ان کو میری تنہائی کا بات تیری ہے اگر لوگ اُڑاتے ہیں مذاق ورنہ کچھ اس میں بگڑتا نہیں سودائی کا آسماں پر یہ نہیں جلوہ فگن قوس و قضا ایک حلقہ سا ہے خاکہ ہے تیری انگڑائی کا حُسن بے تاب ہے خود جلوہ نمائی کے لیے مفت میں نام ہے بدنام تمنائی کا ان کی نظروں نے ہی مارا ہے مجھے اے ساجد جن کی نظروں میں ہے اعجاز مسیحائی کا