نیند سے مجھ کو جگاتا ہے چلا جاتا ہے وہ مرے خواب میں آتا ہے چلا جاتا ہے اور میں ٹیک ہٹاتا نہیں دروازے سے عشق آواز لگاتا ہے چلا جاتا ہے میرا کردار کہانی میں فقط اتنا ہے کوئی روتا ہوا آتا ہے چلا جاتا ہے
خوش بچھڑ کر رہ سکا تو بھی نہیں، میں بھی نہیں ہاں مگر یہ مانتا تو بھی نہیں، میں بھی نہیں عمر اک دوجے کے پاؤں کاٹنے میں کاٹ کر آج پیروں پر کھڑا تو بھی نہیں، میں بھی نہیں ایک چپ ہے جو نگلتی جارہی ہے شہر کو لیکن اس پر بولتا تو بھی نہیں، میں بھی نہیں