اچانک بھیڑ کے خاموش ہو جانے کا مطلب ہے
اجازت مل گئی مجھ کو
کہ میں اب بول سکتا ہوں
کسی ہلڑ مچاتی بھیڑ کو خاموش کرنا
میرا پہلا امتحاں تھا
اور میں اس میں کھرا اترا
اب اگلا امتحاں یہ ہے
مجھے اس خاموشی کو تالیوں کے شور میں تبدیل کرنا ہے
زندگی میں کوئی شخص ایسا ضرور ہونا چاہیے کہ جسے جب یہ بتایا جائے کہ میں بلکل ٹھیک ہوں ، تو وہ مسکرا کر کہے کہ جناب یہ اداکاری بعد میں کر لیجیئے گا پہلے یہ بتائیں مسئلہ کیا ہے میں کچھ مداوا کرسکوں کوئی تو ہو جس پر آپکو اس قدر یقین ہو کہ جیسے آئینے کی دوسری جانب کھڑا آپ کا اپنا عکس جسکو اپنی اپنی خامیاں بتاتے ہوۓ آپکو جھجک کچھ محسوس نہ ہو جس پر اس قدر یقین ہو کہ میں اگر گرا تو یہ مجھ
کو تھام لے گا کوئی تو ہو جو روح کا ساتھی ہو
نہ حریف جاں ، نہ شریکِ غم، شبِ انتظار کوئی تو ہو
کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصر
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا۔۔۔
تُو سامنے ہے مگر تُو وہ تو نہیں
محبت تھی جس سے جِسے دل دیا تھا
اب بس خاموشیاں
تمہیں جب کبھی ملیں ' فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتاردو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو
مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال وخد
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو، مرے سارے زنگ اتار دو
کسی اور کو مرے حال سے نہ غرض ہے کوئی نہ واسطہ
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو' میں بگڑ گیا ہوں سنوار دو
مری وحشتوں کو بڑھا دیا ہے جدائیوں کے عذاب نے
مرے دل پہ ہاتھ رکھو ذرا' مری دھڑکنوں کو قرار دو
ان کہیں سی اذیت ہے اندر میرے
جو مجھے گہری نیند سونے نہیں دیتی
رو دینا کتنا مشکل لگتا ہے نا
دن بھر کی مصروفیات کے بعد
تنہا بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کر کے
کسی کی باتوں کو یاد کرنا
اور پھر رو دینا ۔۔۔۔۔
مار دیتے ہیں کبھی خود کے انتخاب بھی
لوگ کہتے ہیں کہ نفرت خراب چیز ہے
تو محبت نے ہمیں کون سا جھولا جھلایا
وعدوں کے پاسدار تھے، باتوں سے پھر گئے
دل کے قریب لوگ تھے، نظروں سے گر گئے
چٹکی بجا کے تجھ کو تماشا دکھا تو دوں
لیکن میں ترے واسطے خود کو گراؤں کیوں
اب تیرے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں
کتنی رغبت تھی تِرے نام سے پہلے پہلے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
ہم تنہائی پسند ہرگز نہیں ہوتے
بس جب ہمارے پسند کے لوگ ہمیں میسر نہیں آتے تو ہم تنہائی اور اکیلے پن کو ترجیح دیتے ہیں خاموشی بھی اس لیے اوڑھ لیتے ہیں کیونکہ من پسند آوازوں کی دل پر دستک ہی نہیں ہوتی….
چارلس بکوسکی کے نزدیک دنیا میں موجود خوبصورت روحیں زیادہ تر تنہا اور خاموش پسند ہوتی ہیں
محبت وہ شخص کرسکتا ہے جو اندر سے خوش ہو، مطمئن ہو اور پرباش ہو۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگالیا ۔۔۔۔۔ سونے کا تمغہ نہیں کہ سینے پر سجالیا۔۔۔۔ پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھوڑ کر۔ محبت تو روح ہے۔۔۔۔۔ آپ کے اندر کا اندر ۔۔۔۔ آپ کی جان کی جان ۔۔۔۔۔۔ محبت کا دروازہ صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا، اپنی ایگو اور اپنے نفس سے جان چھڑا لیتے ہیں
نہیں ہو تُم بھی وہ اب مُجھ سے یارو کیا چھپاؤ گے
ہوا کی سمت کو مٹی اُڑا کر دیکھ لیتا ہوں
سنا ہے بے نیازی ہی علاجِ نااُمیدی ہے
یہ نسخہ بھی کوئی دن آزما کر دیکھ لیتا ہوں
محبت مر گئی مشتاقؔ لیکن تم نہ مانو گے
میں یہ افواہ بھی تُم کو سنا کر دیکھ لیتا ہوں
اب نہ کُھل پائے گا یہ بند دریچہ دِل کا
تُم نے آسان سمجھ رکھا تھا آنا جانا
ساتھ تو زندگی بھی چھوڑ دیتی ہے
پھر لوگوں سے شکایت کیسی
اپنی کہانی کا اکلوتا گواہ ہوں میں صرف میں ہی جانتا ہوں کہ میں کس دور سے گزر رہا ہوں۔۔۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain