فقط باتوں سے دل کب بہلتا ہے
ہونٹوں کے کئی کام اور بھی ہیں
اندھیری رات کے لمحے تمام ہونے تک
تجھے ہی سوچتا ہوں صبح سے شام تک
میں ایسا جسم ہوں جس کی رُوح بھی تُو ہے،
ادھوری ذات ہوں میں تیرے نام ہونے تک
تیری آواز سن نہ لوں تو دل نہیں لگتا
ترپتا رہتا ہوں تجھ سے ہم کلام ہونے تک
تیری نظر کی قیمت پہ بِک رہا ہے کوئی
اُسے خرید لے تُو مہنگا دام ہونے تک۔
عشق کی آگ جو سینے میں لگا بیٹھے ہیں
سلگتی رہتی ہے یہ نیندیں حرام ہونے تک
ایک بھیگی ہوئی سی رات ملے
اُس رات میں تیر ا ہاتھ ملے۔
تیرے لب سے ٹپکیں جو بوندیں
انھیں میری لبوں کا ساتھ ملی
کچھ تم بھی بہکے بہکے سے
کچھ مجھ پہ نشہ سا طاری ہو
ہر پل میں جان مدھوشی ہو
ایک ایسی رات ہماری ہو
پھر تم آؤ میری بانہوں میں
میں پیار کروں تمیں جی بھر کے
تم مجھ سے تھورا شرماؤ
شرما کہ گلے سے لگ جاؤ
میں جتنا تم کو پیار کروں
تم اتنے ہی بہکتے جاؤ
ہمیں پیار کے کچھ لمحات ملیں
اک بھیگی ہوئی سی رات ملے۔
مجھے اپنے جسم کے انگ انگ سے محبت کرنے دو
مجھے قریب تر کرو مجھے بس بہکنے دو
اس کے بدن کی خوبصورتی
زمان و مکاں سے ذرا الگ ہے
تو ساتھ دے تو ایک ہی کمرے میں قید ہم
تبدیل اپنے جسم کی آب و ہوا کریں🔥🖤
تمہارے جسم کو کیا عطر ملنے کی حاجت🖤
پڑی مہکتی ہے خود عالم شباب کی خوشبو🔥
منٹو اگر ٹک ٹاک دیکھ لیتا تو یہ کبھی نہ کہتا کہ عورت مجبوری میں طوائف بنتی ہے
عورت چھپکلی سے نہیں ڈرتی۔ وہ ڈرنے کا دکھاوا کرتی ہے تا کہ کوئی اسے اپنی آغوش میں لے لے۔
منٹو
بقول منٹو عورت صرف غریب اور بدصُورت مردوں سے ہراساں ہونے پر شور مچاتی ہے۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain