کافی عرصہ پہلے میں نے اس پر ایک تحریر پڑھی تھی کہ انگریز ہندوستان سے کتنی دولت لوٹ کر لے کر گئے؟ تحریر میں لکھا تھا کہ ماہرین معاشیات کی محتاط تحقیق کے مطابق اس دولت کا تخمینہ آج کے حساب سے 30 کھرب ڈالر سے زائد بنتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 1700ء میں غازئ اسلام سلطان اورنگزیب عالمگیر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہندوستان دنیا میں معاشی اور فوجی لحاظ سے سپر پاور تھا اور دنیا کی معیشت یعنی جی ڈی پی میں ایک چوتھائی حصہ رکھتا تھا۔ اور جب انگریز یہاں سے دفع ہوئے تو ہندوستان دنیا کا غریب ترین ملک تھا جس کا عالمی معیشت میں حصہ ایک فیصد بھی نہیں تھا۔۔۔۔
لیکن بھائیو ! پاکستان کے دو ٹکے کے لبرلوں اور خواجہ آصف جیسے چوروں کے نزدیک ہندوستان کے مسلمان بادشاہ تو لٹیرے اور بیرونی حملہ آور تھے لیکن انگریز یہاں کے لوگوں کی ترقی کا خواہاں تھا۔۔۔۔۔
کل ان شاء اللہ میں الحاج مالک الشباز (قبول اسلام سے قبل : میلکم ایکس) کی خودنوشت دوبارہ پڑھوں گا کیونکہ وہ مجھے یاد دلاتی ہے کہ ان بیچارے آزادی ، انسانی حقوق اور مساوات جیسے بظاہر خوشنما نظریات کے علمبرداروں کی تاریخ کتنی گھٹیا، جاہلانہ اور گھناؤنی ہے۔ انتہائی دلچسپ اور زبردست کتاب ہے۔۔۔۔ میری پسندیدہ کتب میں شامل ہے۔ خصوصا سفر حج کی تفصیلات تو انتہائی روح پرور ہیں۔۔۔۔
ہندوستان میں مندر سے کیلا کھانے پر مسلم نوجوان کو قتل کر دیا گیا۔
ہندوستان میں گوشت لے جانے والے راہ گیر کو ہجوم نے مار ڈالا۔
ہندوستان میں ہندو نے مسلمان کو گھر فروخت کیا تو ہندو ہمسایوں نے احتجاج شروع کر دیا۔
کینیڈا میں ٹرک کے نیچے پورا خاندان اس لیے کچل دیا گیا کہ وہ مسلمان تھا۔
برطانیہ میں جھوٹی افواہ پر درجنوں مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور سڑکیں میدان جنگ بن گئیں۔
آسٹریلیا میں میری کرسمس کے جواب میں ہیپی ہولی ڈے کہنے پر خاتون کا حجاب کھینچ کر اس کو بوتلوں سے پیٹا گیا۔۔۔۔
اس کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیں جیسے نیوزی لینڈ، فرانس، سوئٹزرلینڈ میں مساجد میں فائرنگ یا اٹلی میں میلفکون میں نماز پر پابندی وغیرہ وغیرہ۔
لیکن بھائیو ہم پاکستانی لبرل تو منافق ہیں۔ ہم اپنی موم بتیاں صرف تب جلائیں گے جب کوئی گستاخ مرے گا۔۔۔۔
میں لبرل کیوں ہوں؟ مجھے اسلام سے نفرت کیوں ہے؟
دیکھو بھائیو آج میں صاف بات کروں گا۔ صدیوں پہلے شیعہ حضرات میں ایک آدمی پیدا ہوا جسے اپنی بہن سے عشق ہو گیا۔ اس نے اپنی بہن سے شادی کر لی اور پھر ایک نیا فرقہ قائم کر لیا جس کا نظریہ یہ تھا کہ جو اہلبیت کو مانتا ہو اس کے لیے سب کچھ حلال ہے۔ تو بھائیو جس طرح اس شخص نے اہلبیت کی محبت کو اپنی حرامکاری کے جواز کے لیے استعمال کیا اسی طرح میں بھی آزادی اور انسانی حقوق جیسے الفاظ کو ہوس پرستی اور اپنے نفس کی تسکین کے ذرائع کے جواز کے لیے استعمال کرتا ہوں۔ مثلا اب آپ خود سوچیئے کہ اگر سب عورتیں باحیا اور پردہ دار ہو جائیں تو مجھ جیسے لفنگے کو کون منہ لگائے گا۔ اس لیے میں آزادئ نسواں کا نعرہ لگا کر عورتوں کو ننگا کروانا چاہتا ہوں تاکہ مجھے تسکین مل سکے۔ بس یہی وجہ ہے کہ میں لبرل اور اسلام مخالف ہوں۔
سوال : آپ کی اسلام سے کیا دشمنی ہے؟
یورپ کا جواب : مسلمانوں نے ہم سے صلیبی جنگیں لڑیں۔ ہم سے قسطنطنیہ چھین لیا۔ 800 سال تک اندلس پر حکومت کرتے رہے۔ عثمانیوں نے یورپ کے ساتھ صدیوں تک محاذ جنگ کھولے رکھا۔ ہماری دشمنی تو بنتی ہے۔
پاکستان میں رہنے والے لنڈے کے لبرل کا جواب : اآآاا اجی دیکھو جی اگر یورپ والے کچھ کہہ رہے ہیں تو سچ ہی کہہ رہے ہوں گے نا۔ اتنی اچھی اچھی وہ فلمیں بناتے ہیں۔ اتنی ترقی کر لی ہے ان لوگوں نے۔ یہ بڑی بڑی عمارتیں بنا رکھی ہیں انہوں نے۔ پھر رنگ بھی تو دیکھو کتنے سفید ہیں ان کے۔ ایسے لوگ جھوٹ کیسے بول سکتے ہیں۔ اس لیے میں تو بس ان کی تقلید کرتا ہوں۔ میرا اپنا تو کوئی دماغ نہیں ہے۔
ایران کو ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد پاکستانیوں کو سوچنا چاہیئے کہ جس ایٹمی طاقت ہونے پر وہ اتنا فخر محسوس کرتے ہیں وہ آج تک کسی مظلوم مسلمان کے کام کیا اس لیے تو نہیں آئی کہ ہم نے امریکیوں کو ضمانت دے رکھی ہے کہ سرکار یہ بم شم تو بس دکھانے کے لیے ہی بنا رہے ہیں۔ ہماری کیا مجال کہ آپ کے حکم کے بغیر ان کا نام بھی لے سکیں۔۔۔۔۔
مجھے یقین ہے کہ ایسی ہی کوئی ڈیل کی گئی ہو گی جیسی انہوں نے ایف 16 طیاروں کے متعلق کر رکھی ہے کہ سوائے انہیں "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے کہیں اور استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یعنی بالفاظ دیگر یہ طیارے پاکستان میں ہی بم گرانے کے علاوہ اور کسی مقصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتے۔۔۔۔
دمادم کے ان لنڈے کے لبرلوں سے تو پاولوو کے کتے ہی سیانے تھے کہ جب کھانا ملنے کی عادت پکی ہو گئی تب ہی گھنٹی بجنے پر کھانے کے بغیر ان کی رالیں بہتی تھیں۔۔ لیکن ان سستے لبرلوں میں سے اکثر کو تو ان کے مالکوں نے کبھی ہڈی تک نہیں ڈالی لیکن یہ ایسے بے غیرت ہیں کہ پھر بھی دم ہلاتے رہتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگائیے کہ وہ لبرل جس کو امریکی اور یورپی شاید ایئر پورٹ پر کپڑے اتروا کر تلاشی لینے کے بعد بھی اپنے ملکوں میں داخلے کی اجازت نہ دیں وہ بھی اسلام کے خلاف ان کے موقف کا دفاع کر رہا ہوتا ہے۔ اسے کہتے ہیں بندہ بے دام اور ذہنی غلام۔۔۔۔۔۔
دو ٹکے کے عشقیہ فسقیہ اور لچر ناولوں سے لیے گئے اقوال کو دمادم کے جاہل لوگ "ری پیکجنگ" کے بعد "حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں" یا "نفسیات کہتی ہے" جیسے لیبل لگا کر کاپی پیسٹ کر رہے
ہوتے ہیں۔۔۔۔۔
نہ ان لوگوں نے کبھی مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے صحیح الاسناد فرامین کا مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی انہیں نفسیات کی ابجد کا علم ہے ورنہ ان کو اندازہ ہو جاتا کہ ایسے سستے اقوال کسی "شہزادی رائٹس" یا "مشتاق ناولسٹ" کے ذہن کی پیداوار ہی ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔
بندر کے ہاتھ میں بندوق اور جاہلوں کے ہاتھوں میں اے آئی، دونوں ایک جتنے نقصان دہ ہیں۔ بیوقوف لوگ سمجھتے ہیں کہ اے آئی کی طرف سے ملنے والا ہر جواب حرف آخر ہے حالانکہ سیاسی اور مذہبی معاملات میں اے آئی انتہائی متعصب اور جانبدار ہے کیونکہ اس کے الگورتھمز کو مغربی بیانیے کی ترویج و اشاعت کی تربیت دی گئی ہے۔ کام کاج کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن جو لوگ سماجی، معاشرتی اور مذہبی معاملات پر اے آئی سے گیان لینے پر یقین رکھتے ہیں ان کا مغربی پروپیگنڈے کی پاتال میں جا گرنا بدیہی امر ہے۔
بولنے سے پہلے تولنے کی عادت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو "کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب" نامی کتاب پڑھ لیجیئے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ جن الفاظ اور جملوں کو ہم بسا اوقات روزمرہ کی گفتگو میں بے دھڑک استعمال کر رہے ہوتے ہیں وہ ہمارے ایمان کے لیے کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ گفتگو میں احتیاط برتنے لگیں گے اور اپنے الفاظ کے انتخاب پر غور و فکر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یہ میری پسندیدہ کتب میں سے ایک کتاب ہے جس سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
میں کوئی دمادم کے ان دو ٹکے کے بیوقوف چھچھورے لونڈوں کی طرح گیا گزرا تھوڑی ہوں جو لڑکیوں سے ان کی ذاتی معلومات یا تصویریں براہ راست مانگتا پھروں۔ میں تو بڑا گھاگ شکاری ہوں۔ پہلے تو میں یہ یقینی بناتا ہوں کہ ایسی باحیا محترمہ نہ ہوں جن سے مجھے کھری کھری سننی پڑ جائیں بلکہ کوئی "کھلے ڈلے" مزاج والی ہو۔ پھر میں بڑی مہارت سے ان بیوقوف عورتوں کو "قدامت پسند" اور "ڈرپوک" کہہ کر ریورس سائیکالوجی کے ذریعے "روشن خیال" اور "بولڈ" بننے پر اکساتا ہوں۔ اس کے بعد گھی نکالنے کے لیے انگلی ٹیڑھی کرنے کی ضورت بھی نہیں پڑتی اور میری پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔۔۔۔(دمادم پر "آزادئ نسواں" کے علمبردار لنڈے کے لبرلوں کا طریقہ واردات) ۔
دمادم کے "باذوق" شعرا حضرات کی شاعری دیکھ کر مجھے تحریرات لقمان میں پڑھا ہوا ایک قصہ یاد آ جاتا ہے۔ مولانا عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ ناصرف میدان علم و عمل کے شہسوار تھے بلکہ شاعری میں بھی انہیں ملکہ حاصل تھا۔ ایک دن دمادم کے ان کاپی پیسٹ کے سہارے چلنے والے شاعروں کی طرح کا ایک شاعر ان کی خدمت میں اپنا دیوان لے کر حاضر ہوا اور اپنے بے تکے کلام سے مولانا جامی کی سمع خراشی کرنے لگا۔ آپ بھی اس کا دل رکھنے کی خاطر اس کا کلام سنتے رہے۔ جب کلام سنا چکا تو کہنے لگا کہ حضرت یہ کلام بڑا متبرک ہے۔ میں اسے حجر اسود کا بوسہ دلوا کر اور غلاف کعبہ سے مس کروا کر لے کے آیا ہوں۔ اس پر مولانا جامی کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا اور فرمایا "کاش تو اسے زمزم میں بھی غوطے دلوا دیتا"۔
مجھے کبھی کبھار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ہم بحیثیت قوم اور کسی چیز میں ترقی کریں یا نہ کریں مگر مردہ ضمیری اور بے حسی میں بڑی تیز رفتاری سے ترقی کر رہے ہیں۔ مثلا موجودہ حالات کو دیکھ کر کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم اسی پاکستان میں رہ رہے ہیں جس کی فضائیہ کے پائلٹس نے آج سے پانچ دہائیاں قبل عرب اسرائیل جنگ کے دوران ناصرف قابض صیہونیوں سے دو بدو جنگ کی تھی بلکہ ان کے طیارے بھی مار گرائے تھے۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ میں اسی پاکستان میں رہ رہا ہوں جو تین عشرے پہلے تک اقوام متحدہ کی پابندیوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بوسنیا میں مسلمانوں کو ہتھیار فراہم کر رہا تھا۔
دمادم کا لبرل : اگر کوئی اسلام کے خلاف بات کرتا ہے، خدا اور رسول کو گالیاں دیتا ہے تو تم لوگ آپے سے باہر نہ ہو جایا کرو۔ ذرا بھی برداشت اور رواداری کا مادہ نہیں ہے تم انتہا پسندوں میں۔ اسی لیے یورپ اور امریکہ والے تم لوگوں کو دہشت گرد کہتے ہیں۔
سونامی : ارے لبرل صاحب ! آپ تو نرے گدھے ہیں۔
دمادم کا لبرل : ابے تیری ماں---- تیری بہن---- تیری ہمت کیسے ہوئی مجھے گدھا کہنے کی۔ میں تیری----- (راوی کا بیان ہے کہ داعئ محبت و برداشت جناب لبرل صاحب کی فحش گالیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔)
عرض حال
ایک ہفتہ قبل میں نے وعدہ کیا تھا کہ "موج سونامی بر وسواس شیطانی" کے عنوان سے دمادم کے ایک اجہل و اخبث لبرل کو منہ توڑ و سر پھوڑ جواب دیا جائے گا لیکن کچھ مصروفیات کی وجہ سے مجھے وہ یکسوئی میسر نہیں ہو سکی جو اس تحریر کے لکھنے کے لیے درکار ہے۔ بہرحال اگر کوئی معزز قاری منتظر ہے تو وہ خاطر جمع رکھے۔ یہ تحریر مجھ پر قرض ہے اور ان شاءاللہ جلد یا بدیر آپ اسے ضرور ملاحظہ کریں گے۔
کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ میں نے بی بی سی اردو پر ایک لنڈے کے لبرل کا کالم پڑھا جس کا عنوان تھا:"مولوی خادم کی زبان سے عاصمہ جہانگیر کا نام سن کر میں بچپن کی ساری تربیت بھول گیا۔" اور جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اس کالم میں اس لبرل نے پھکڑ اور بازاری زبان خوب استعمال کی تھی اور اس کا سبب تھا اس کی ہم خیال ایک لنڈے کی سستی لبرل عورت عاصمہ جہانگیر کی "گستاخی"۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ یہ رواداری اور برداشت کا منجن بیچنے والوں کی رواداری کے غبارے سے ہوا نکالنا تو بہت آسان ہے۔ ان بے چاروں کی ساری تہذیب، ساری رواداری اور ساری قوت برداشت آپ کے ایک حرف تنقید کی مار ہے۔ یہ آپ کو خدا اور رسول ﷺ کی شان میں گالیاں تو صبر و تحمل سے سننے کا درس دیں گے لیکن آپ نے ذرا ان کے مزاج کے خلاف بات کی نہیں اور یہ پیکران و مبلغین صبر و تحمل لال بھبھوکا ہوئے نہیں۔
لنڈے کے لبرلوں کی منطق
ایران میں حجاب کے لازمی ہونے کے قانون پر : یہ عورتوں پر ظلم ہے۔ ہر عورت کو
اپنی مرضی کے لباس کا اختیار ہونا چاہیئے۔
فرانس میں حجاب پر پابندی کے قانون پر : یہ بالکل درست قانون ہے۔ آپ جس ملک میں رہ رہے ہوں آپ پر وہاں کی اقدار کا احترام کرنا لازمی ہے۔
دمادم کے لبرل ٹٹو کا فلسفہ
جنگ عظیم اول و دوم، ویتنام، عراق، افغانستان، شام، یمن، لیبیا اور صومالیہ سمیت دنیا کے درجنوں ممالک میں محتاط ترین اندازوں کے مطابق ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو قتل کرنے والا امریکہ فرماتا ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اس لیے میں اس کی حمایت نہیں کرتا۔
جب گھٹن حد سے زیادہ بڑھتی ہے تو میں کتائب القسام کی ویب سائٹ پر ویڈیوز دیکھ لیتا ہوں۔ انہیں امریکی اور یورپی دہشت گردوں کے فراہم کردہ جدید ترین اسلحے سے لیس قابض صیہونی فوجیوں کا پانی کے پائپوں سے بنے راکٹوں اور سرنگوں میں ایجاد کردہ گرینیڈز سے مقابلہ کرتے دیکھ کر مجھے فخر اور شرم دونوں محسوس ہوتے ہیں۔ فخر اس لیے کہ وہ بہادر سرفروش میرے دینی بھائی ہیں اور شرم اس لیے کہ میں اپنے بھائیوں کی مدد بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔
alqassam.ps
کچھ احباب نے بات چیت کے دوران یہ نکتہ اٹھایا کہ یار یہ انجینیئر مرزا وغیرہ جیسے لوگ اگر گمراہ ہیں تو ان کے اتنے لمبے لمبے لیکچرز والی ویڈیوز اتنے لاکھوں لوگ کیوں دیکھتے ہیں اور ان کی اتنی فالونگ کیوں ہے؟ تو بھائیو پہلی بات یہ کہ مرزا ہو یا کوئی اور صرف فالونگ یا ویوز ہی اگر کسی کی حق پرستی کی دلیل ہیں پھر تو آپ کے نظریے کے مطابق "مسٹر بیسٹ" سب سے بڑا ولی اللہ ہے کیونکہ گوگل کے مطابق یوٹیوب پر سب سے زیادہ سبسکرائبر اس کے ہیں۔ دوسرا یہ کہ یوٹیوب پر ویو کا مطلب ہے کہ آپ نے ایک ویڈیو تیس سیکنڈ یا اس سے زائد کے لیے دیکھی ہے۔ پوری ویڈیو دیکھنا ویو کے لیے شرط نہیں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سب دیکھنے والے ویڈیو بنانے والے سے متفق بھی ہوں۔ تو صرف ویوز کی بنا پر یہ بات کہنا درست نہیں ہے کہ فلاں آدمی کو اتنے لاکھ لوگ گھنٹوں گھنٹوں سنتے ہیں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain