لڑکی بولی رک جاؤ بھائی اس غریب سے بھی کچھ لیتے جاؤ لڑکی دوبارہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئی اور دعا کی کہ اے اللہ اس نوجوان پر جہنم کی آگ حرام کر دے اس کو نیکوں کار میں شمار کر دے بس یہی وجہ ہے میرے دوست اس دن سے لے کر آج تک میں اس دنیا میں جو بھی گرم چیز کو پکڑتا ہوں مجھے کچھ نہیں ہوتا آگ میں بھی ہاتھ ڈالتا ہوں تو وہ مجھے کچھ نہیں کہتی میری اس بہن کی دعا ہے مجھے مجھ پر اللہ نے دنیا کی آگ بھی حرام کر دی ہے امید کرتا ہوں جہنم کی آگ سے بھی اللہ پاک مجھے محفوظ رکھے گا ذرا سوچئے اس کہانی سے ہمارے لئیے کیا سبق ہے یہ ایک کہانی نہیں ہے سچی حقیقت ہے اور آج اس دور کے نوجوان اور لڑکی کو دیکھ لیں
لڑکی نے جا کر دروازہ کھولا تو دیکھا وہی نوجوان دروازے پر کھڑا ہے لڑکی نے کہا تم کیا لینے آئے ہو یہاں پر چلے جاؤ یہاں سے وہ نوجوان بولا آپ غریب ہو کر بھی اللہ سے اتنا ڈرتی ہو بچوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا مگر گناہ نہیں کیا تو میرے پاس اتنی دولت ہونے کے باوجود مجھے اللہ سے کتنا ڈرنا چاہیے یہی سوچ کر میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں میں آپ کو سچے دل سے اپنی بہن مانتا ہوں اور آپ کے بچوں کے لیے کھانا لایا ہوں نوجوان کھانے دے کر واپس جانے لگا تو
یہ سوچتی لڑکی اس نوجوان کے دروازے پر پہنچ گئی اور کہا اے نوجوان مجھ پر رحم کھا ترس کھا مجھ پر میرے بچے بھوک سے مر رہے ہیں تو وہ نوجوان بولا تم میری بات مان لو میں تمھاری بات مان لوں گا لڑکی نے کہا لعنت بھیجتی ہوں تمہاری اس دولت پر میں کیوں اپنے اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نافرمانی کروں وہ بھی صرف کھانے کے لیے جس نے مجھے یہ عزت دی ہے اسی کی نافرمانی میں کیسے کر سکتی ہوں تم اپنی دولت اپنے پاس رکھو یہ کہہ کر لڑکی واپس چلی گئی گھر جا کر اس نے وضو کیا اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئی اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگی کہ مجھے اس گنا سے بچا لیا اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی
میرے بچے تو بچ جائیں گے اور پھر اللہ سے توبہ کر لوں گی کیونکہ انسان گنا کرتے وقت یہی سوچتا ہے کہ اللہ ہم سے بہت دور ہے اور توبہ کرتے وقت یہی سوچتا ہے اللہ ہمارے بہت قریب ہے تو وہ لڑکی چل پڑی اس نوجوان کے پاس وہ چل رہی تھی راستے میں اسے سوچ آئی اگر میں گنا بھی کروں پھر بھی میرے بچے مر گئے تو کھانے کھانے کے بعد بھی اگر ان کو موت آ گئی تو یا گنا کرنے کے بعد مجھے توبہ کا موقع نہ ملا مجھے پہلے موت آ گئی تو قبر میں کیا منہ لے کر جاؤں گی میں
لڑکی رو کر بولی تمہیں اللہ کا کوئی خوف نہیں ہے کیا تم نے مرنا نہیں ہے نہیں چاہیے مجھے ایسی مدر یہ کہہ کر لڑکی واپس چلی گئی جب گھر گئی تو بچے جلدی سے ماں کے پاس آئے اور کہنے لگے ماں ہمارے لیے کھانا لائی ہو ہمیں بہت بھوک لگی ہے ہم پیاس سے مر رہے ہیں لڑکی روتی اور اپنے بچوں کو تڑپتا دیکھ رہی تھی اتنے میں ایک بچا بولا ماں اگر آپ ہمیں کھانا نہیں کھلا سکتی تو ہمیں اپنے ہاتھوں سے مار دے ہمارا گلہ ہی دبا دے یہ بات سنی تو ماں آخر ماں ہوتی ہے اس کا کلیجا پھٹنے لگا اس نے دل میں سوچا کیوں نہ میں اس نوجوان کی بات مان لوں
میں لڑکی کو دیکھا اور بہت خوش ہوا کہ آج یہ میرے دل کی خواہش پوری کرے گی میں نے اپنے نوکروں سے کھا جاؤ اس لڑکی کو میرے کمرے میں لے آؤ لڑکی میرے کمرے میں آ گئی میں نے پوچھا کیا چاہیے تمہیں تو وہ لڑکی بولی اے نوجوان میں شادی شدہ ہوں میرے 3 بچے ہیں اور وہ بھوک سے تڑپ رہے مر رہے مہربانی کر کے میرے بچوں کے لیے کچھ کھانے کے لیے دے دو وہ نوجوان بولا تم میرے دل کی خواہش پوری کر دو میں تمہارے بچوں کو اور تم کو مالا مال کر دو گا لڑکی نے پوچھا تمہارے دل کی کیا خواہش ہے میں نے کہا میں تم سے زنا کرنا چاہتا ہوں
ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اور یہ کہہ کر چلی گئی میں بھی اس لڑکی کے پیچھے پڑا رہا مگر وہ لڑکی میری ایک نہ سنتی تھی پھر دن ایسا آیا ہمارے شہر میں قہت پڑ گیا خوشک سالی ہو گئی لوگ بھوک سے مر رہے تھے آخر کار وہ مجھے سے مدد مانگنے میرے گھر پر چلے آئے کیونکہ میں ایک امیر آدمی تھا میں نے لوگوں کی مدد کرنا شروع کر دی ایک دن میں نے دیکھا وہ لڑکی بھی لوگوں کی درمیان مدر کے لیے قطار میں کھڑی ہے
میرا جوانی کا دور تھا اور میں ایک امیر باپ کا بیٹا تھا میں چاہتا تو دنیا کی جو چیز خریدتا تو خرید سکتا تھا ایک دن میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا تھا تو میں نے گلی میں ایک خوبصورت لڑکی دیکھی میرا دل اس کی طرف بری نیت سے مائل ہوا میں نے اس اس لڑکی سے بات کرنا چاہی میں نے کہا کون ہو تم اور کہاں رہتی ہو تو اس نے لڑکی نے جواب دیا میں اللہ کی بندی ہو اور اللہ کی امان میں رہتی ہوں مگر مجھے میری ہوس اور اس کے حسن کے سوا اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا میں نے اس لڑکی سے کہا اگر تم میری خواہش پوری کر دو تو میں تمہیں مال و دولت سے مالا مال کر دو کا سونے زیور سے تول دوں گا مگر وہ لڑکی بولی
دو دوست جا رہے تھے تو ان میں ایک اگر گرم چیز کو پکڑتا تو اس کے ہاتھ کو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا وہ جتنی بھی گرم چیز کو ہاتھ لگاتا ہتکہ وہ آگ میں ہاتھ ڈال دیتا تو اس کے ہاتھ کو کچھ نہیں ہوتا تھا آگ اسے کچھ نہیں کہتی تھی دوسرا دوست پریشان تھا آخر یہ ماجرا کیا ہے اس نے اپنے دوست سے پوچھا ایسا کیوں ہوتا ہے کیا وجہ ہے آگ بھی آپ کو کچھ نہیں کہتی تو دوسرے دوست نے کہا آپ رہنے دیں اس بات کو مگر دوست کے لیے حیرت کی بات تھی تو اس نے بار بار اسرار کیا آخر کیا وجہ ہے اس کی تو دوسرے دوست مجبور ہو گیا بات بتانے کیلئے تو وہ دوست سے بولا سن اے دوست مجھے آگ کیوں کچھ نہیں کہتی