ایاز وہ ڈبیا لے کر بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے ۔۔ بادشاہ نے وہ ڈبیا لی اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین بڑے ڈبے شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے آپ تین ڈبے کیوں دے رہے ہیں ۔۔ بادشاھ نے ایاز سے کہا ایاز وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے ہم بادشاہ ہیں ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ۔۔ آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ مانگیں تو سہی
کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو طبیب کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔ اس شخص نے حکیم سے ایک ڈبیا لی اور چلا گیا لوگوں کے دروازے کھٹکھٹانے لگا مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی جب مسئلہ حل نہ ہوا تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبیا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں ۔۔ ایاز وہ ڈبیا لے کر بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے ۔۔
" بُہت اذیت ناک ہوتا ہے وہ لمحہ کہ ؛ جب دُوسروں سے زیادہ خود کو اِس بات کا یقین دِلانا پڑتا ہے کہ ؛ میں اُداس نہیں ہُوں ، میں بُہت خوش ہُوں ، مُجھے رونا نہیں آتا ، میں کمزور نہیں ہُوں اور مُجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا! ۔ "
کچھ تعلقات ہمیں ختم کرنے ہی پڑتے ہیں کیوں کہ ان سے ہماری وابستگی صرف لفظ تعلق کی حد تک ہوتی ہے اس میں احساس کا عنصر نہیں ہوتا انہیں نبھانے کے نام پر گھسیٹنا پڑتا ہے ۔۔۔۔کبھی پرانا حوالہ دے کر تو کبھی کوئی نام دوہرا کر اور ضروری نہیں کہ ہم اتنے مضبوط ہوں کہ ا یسے تعلقات کو گھسیٹ سکیں تو بس جو تعلق آپ کو دکھ دے تکلیف دے دل آزاری کرے اس کو ختم کرنا ہی آپ کے لیے بہتر ہے . دل کو پتھر بنا لینا ہی بہتر ہے.
_"میری خواہش ہے کہ میری قبر پر ایک نہیں کئی کتبے ہوں میرے نام، تاریخِ پیدائش و وفات کے کتبے سے ہٹ کر،،، اور ان تمام کتبوں پر میرے دل میں پیدا ہونے والی خواہشات درج ہوں،،، " ساتھ ہی خواہش کے دل میں پلتے رہنے کا عرصہ،“وجہ موت اور تاریخ بھی لکھی ہو"
کسی کو ہم عجوبوں سے بچھڑ جانے کا کوئی خوف لاحق ہے تو نا حق ہے ہمیں خود بھی نہیں معلوم کہ ہم کون ہیں اور کس جگہ پر ہیں بھلا وہ کون ہیں جو ہم سے افضل ہیں بھلا ہم کس سے بہتر ہیں پرندے ہیں تو پھر اپنی اُڑانے کیوں مقرر ہیں کسی بھی راستے پے قدم رکھیں اک ہی منزل پے کیسے جا نکلتے ہیں خُدا ہوتا ہے ہوگا مگر ہمیں اتنا پتہ ہے تم ہمارے ہو یہ ہنستے کھیلتے قصبے ویرانیوں کا گھر نہ بن جائیں ہمیں وقتاً فوقتاً چومتے رہنا کہ ہم پتھر نہ بن جائیں
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain