میں نہیں چاہتی ماں چہرہ پڑھ لے اس لیے دکھوں کو اپنے چہرے پر سجانے کی بجاۓ سوچ کی وحشت کو لفظوں کی صورت کاغذ پہ اتارا کرتی ہوں اندر سے من کے حالات چاہے جیسے بھی ہوں چہرے پر پھیلی بشاشت سے ماں میری ہمیشہ مطمئن سی رہتی ہے لفظوں کی تلخی وہ بالکل محسوس نہیں کر پاتی کیونکہ یہ بھی تو غنیمت ہے کہ ماں میری ان پڑھ ہے! VirOo
ایسا نہیں کہ ھم کو محبت نہیں ملی ھم جیسی چاھتے تھے وہ قربت نہیں ملی ویسے تو ملنے کو زندگی میں کٸ ہمسفر ملے لیکن طبعیتوں سے طبعیت نہیں ملی چہروں کے ہر ہجوم میں ھم ڈھونڈتے رھے صورت نہیں ملی کہیں سیرت نہیں ملی وہ یک بہ یک ملا تو بہت دیر تک ہمیں الفاظ ڈھونڈنے کی بھی فرصت نہیں ملی اس کو گلہ رہا کہ توجہ نہ دی اسے لیکن ہمیں خود اپنی رفاقت نہیں ملی ہر شخص ذندگی میں بہت دیر سے ملا کوٸی بھی چیز حسبِ ضرورت نہیں ملی. VirOo