mein Ay tan nimi ahda,Gunahgaar nimi mein...
Ay such hey muhabbat da Adakaar nimi mein...
hunr Soch k kar piyaar da Aghaaz medey naal...
Hunr pehly jehan Dheer wafadar nimi mein...
Na karni medey naal wala ayjhan mazakan ...
Na akhin wala yaar teda yaar nimi mein...
Mein jaan k the khardan,unday samnrey messaa...
O awin samajhday jo samajhdaar nimi mein...
nai rok saga zulm tein tarriyan v nai mariyan...
Be pharr han magar Zalim da tarafdaar nimi mein...
Yousuf undi zindgi hey jenday naal Guzarey...
Hunr barnda Undi Rah di Diwaar nimi mein...
دشت دل میں سراب تازہ ہیں
بجھ چکی آنکھ خواب تازہ ہیں
داستان شکست دل ہے وہی
ایک دو چار باب تازہ ہیں
کوئی موسم ہو دل گلستاں میں
آرزو کے گلاب تازہ ہیں
دوستی کی زباں ہوئی متروک
نفرتوں کے نصاب تازہ ہیں
آگہی کے ہماری آنکھوں پر
جس قدر ہیں عذاب تازہ ہیں
زخم در زخم دل کے کھاتے میں
دوستوں کے حساب تازہ ہیں
سر پہ بوڑھی زمین کے امجدؔ
اب کے یہ آفتاب تازہ ہیں
جب بھی اس شخص کو دیکھا جائے
کچھ کہا جائے نہ سوچا جائے
دیدۂ کور ہے قریہ قریہ
آئنہ کس کو دکھایا جائے
دامن عہد وفا کیا تھا میں
دل ہی ہاتھوں سے جو نکلا جائے
درد مندوں سے تغافل کب تک
اس کو احساس دلایا جائے
کیا وہ اتنا ہی حسیں لگتا ہے
اس کو نزدیک سے دیکھا جائے
وہ کبھی سر ہے کبھی رنگ امجدؔ
اس کو کس نام سے ڈھونڈا جائے
جیسے میں دیکھتا ہوں لوگ نہیں دیکھتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں
اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
اپنا تو یہ کام ہے بھائی دل کا خون بہاتے رہنا
جاگ جاگ کر ان راتوں میں شعر کی آگ جلاتے رہنا
اپنے گھروں سے دور بنوں میں پھرتے ہوئے آوارہ لوگو
کبھی کبھی جب وقت ملے تو اپنے گھر بھی جاتے رہنا
رات کے دشت میں پھول کھلے ہیں بھولی بسری یادوں کے
غم کی تیز شراب سے ان کے تیکھے نقش مٹاتے رہنا
خوشبو کی دیوار کے پیچھے کیسے کیسے رنگ جمے ہیں
جب تک دن کا سورج آئے اس کا کھوج لگاتے رہنا
تم بھی منیرؔ اب ان گلیوں سے اپنے آپ کو دور ہی رکھنا
اچھا ہے جھوٹے لوگوں سے اپنا آپ بچاتے رہنا
اتنے خاموش بهی رہا نہ کرو
غم جدائی میں یوں کیا نہ کرو
خواب ہوتے ہیں دیکهنے کےلیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو
کچه نہیں ہو گا گلہ کرنے سے
ان سے نکلیں حکاتیں شاید
حرف لکه کر مٹا دیا نہ کرو
اپنے رتبے کا کچه لحاظ منیر
یار سب کو بنا لیا نہ کرو
اس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
یہ تماشا تھا یا کوئی خواب دیوانے کا تھا
سارے کرداروں میں بے رشتہ تعلق تھا کوئی
ان کی بے ہوشی میں غم سا ہوش آ جانے کا تھا
عشق کیا ہم نے کیا آوارگی کے عہد میں
اک جتن بے چینیوں سے دل کو بہلانے کا تھا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
لے گیا دل کو جو اس محفل کی شب میں اے منیرؔ
اس حسیں کا بزم میں انداز شرمانے کا تھا
رٙنجِ فراقِ یار میں رُسوا نہیں ہُوا
اِتنا میں چُپ ہُوا کہ تماشہ نہیں ہُوا
ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہمسفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا کہ دیکھا نہیں ہُوا
مشکل ہُوا ہے رہنا ہمیں اِس دیار میں
برسوں یہاں رہے ہیں ،یہ اپنا نہیں ہُوا
وہ کام شاہِ شہر سے یا شہر سے ہُوا
جو کام بھی ہُوا ،یہاں اچھا نہیں ہُوا
ملنا تھا ایک بار اُسے پھر کہیں منیر
ایسا میں چاہتا تھا ،پر ایسا نہیں ہُوا
تمہیں غیروں سے کب فرصت ہم اپنے غم سے کم خالی
چلو بس ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی
وہ بھلا کیسے بتائے کہ غم ہجر ہے کیا
جس کو آغوش محبت کبھی حاصل نہ ہوا
زندگی یوں ہوئی بسر تنہا
قافلہ ساتھ اور سفر تنہا
اپنے سائے سے چونک جاتے ہیں
عمر گزری ہے اس قدر تنہا
رات بھر باتیں کرتے ہیں تارے
رات کاٹے کوئی کدھر تنہا
ڈوبنے والے پار جا اترے
نقش پا اپنے چھوڑ کر تنہا
دن گزرتا نہیں ہے لوگوں میں
رات ہوتی نہیں بسر تنہا
ہم نے دروازے تک تو دیکھا تھا
پھر نہ جانے گئے کدھر تنہا
سہما سہما ڈرا سا رہتا ہے
جانے کیوں جی بھرا سا رہتا ہے
کائی سی جم گئی ہے آنکھوں پر
سارا منظر ہرا سا رہتا ہے
ایک پل دیکھ لوں تو اٹھتا ہوں
جل گیا گھر ذرا سا رہتا ہے
سر میں جنبش خیال کی بھی نہیں
زانوؤں پر دھرا سا رہتا ہے
ہر ایک غم نچوڑ کے ہر اک برس جیے
دو دن کی زندگی میں ہزاروں برس جیے
صدیوں پہ اختیار نہیں تھا ہمارا دوست
دو چار لمحے بس میں تھے دو چار بس جیے
صحرا کے اس طرف سے گئے سارے کارواں
سن سن کے ہم تو صرف صدائے جرس جیے
ہونٹوں میں لے کے رات کے آنچل کا اک سرا
آنکھوں پہ رکھ کے چاند کے ہونٹوں کا مس جیے
محدود ہیں دعائیں مرے اختیار میں
ہر سانس پر سکون ہو تو سو برس جیے
آئنہ دیکھ کر تسلی ہوئی
ہم کو اس گھر میں جانتا ہے کوئی
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں
رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں
جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں
دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں
ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے
ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں
Jis Din Lagey K tum merey ho....Awaz Dejiye Ga Janaab...
میرے ہوتے ہوئے گر تجھ کو نہیں فکر مری
میرے نا ہونے سے کیا فرق پڑے گا تجھ کو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain