Mein khandaan ki pabandiyon se waqif hun...
khuda ka shukr hai us shaks ne wafa nahi ki...
Hazaar baar uchala hai zindgi ne mujhey...
bura zaroor manaya hai,badua nahi ki...
terey gharoor se barh kar meri anaa hai mujhey...
Tum pochtey ho mohabbat ka....jaaaa...nahi ki...💔💔
میرے لئے جینے کا سہارا ہے ابھی تک
وہ عہد تمنا کہ تمہیں یاد نہ ہوگا
ہزار باتوں پہ ہم اکثر یونہی خاموش ہیں رہتے
لوگ کہتے ہیں مغرور اور کبھی پاگل ہیں کہتے
یوں تو سنتے ہیں ہر روز بہت اچھے الفاظ بھی
مگر ہم لفظوں سے زیادہ لہجے ہیں سمجھتے
بات کرتے ہیں سیدھی اور زہر کی مانند
ہم باتوں باتوں میں بات نہیں بدلتے
خیال رکھتے ہیں رشتوں کے تقد س کا مگر
نا قدری کرنے والوں کو ہم دوبارہ نہیں ملتے
یہ لوگ جو بن بیٹھے ہیں خدا، سُن لیں
ہم رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے
Woh pathar bhi marein to utha k jholiyan bhar Loun....
Kabhi mehboob k tohfon ko thukraya nahi kartey...
Daur E Shouhrat mein kia Yaron ne yaad boht...Kon pohncha Hai Koocha E Ruswai Tak...
نزاکت اس گل رعنا کی دیکھیو انشاؔ
نسیم صبح جو چھو جائے رنگ ہو میلا
مجھے ڈھونڈنے کی کوشش اب نہ کیا کر
تو نے راستہ بدلا تو میں نے منزل بدل لی
Woh Bik chukey they jab hum khareedney k Qabil howey...
Zamana Beet chuka Tha Humein Ameer hotey hotey...
بے خیالی میں یوں ہی بس اک ارادہ کر لیا
اپنے دل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا
غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
شام کے رنگوں میں رکھ کر صاف پانی کا گلاس
آب سادہ کو حریف رنگ بادہ کر لیا
ہجرتوں کا خوف تھا یا پر کشش کہنہ مقام
کیا تھا جس کو ہم نے خود دیوار جادہ کر لیا
ایک ایسا شخص بنتا جا رہا ہوں میں منیرؔ
جس نے خود پر بند حسن و جام و بادہ کر لیا
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے میں انتظار میں ہوں
مکاں ہے قبر جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں
در فصیل کھلا یا پہاڑ سر سے ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں
بس اتنا ہوش ہے مجھ کو کہ اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں کسی دیار میں ہوں
میں ہوں بھی اور نہیں بھی عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں
منیرؔ دیکھ شجر چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر شب بہار میں ہوں
میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے
دیکھ لی تیری ایمان داری اے دل
تو میرا اور تجھے فکر کسی اور کی
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تیری نگاہوں سے شروع ہوتی ھے محبت کی داستان
اُٹھتی ھے جب میرے چہرے کو انجمن آرائی کرتی ھے
محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا
نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا
نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے
دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا
گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ
بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا
یہ ان کے اعلیٰ نسب کی کُھلی دلِیل رہی
کہ دوستوں میں ہمارا شمُول کر ہی لیا
مُقدّمہ ہے یہ کیسا کہ ختم ہوتا نہِیں
جو دَھن تھا پاس سُپُردِ نقُول کر ہی لیا
ہُوئے ہیں فیصلے سے ہم مگر تہہ و بالا
کِیا ہے ماں نے تو ہم نے قبُول کر ہی لیا
عطا تھی اُس کی سو دِل سے لگا لیا ہم نے
دِیے جو خار تو اُن کو بھی پُھول کر ہی لیا
تُمہارے چہرے کی صُبحوں کو ہم ترستے ہیں
کِسی کی زُلف کی راتوں نے طُول کر ہی لیا
رشید درد کی خیرات بٹ رہی تھی کہِیں
سو اپنے نام کا بخرا وصُول کر ہی لیا
چار سو انتشار ہے کیا ہے
یہ خزاں ہے بہار ہے کیا ہے
سب کو مشکوک تم سمجھتے ہو
خود پہ بھی اعتبار ہے کیا ہے
سوا نیزے پہ چاہیے سورج
جسم میں برف زار ہے کیا ہے
مجھ کو منزل نظر نہیں آتی
دور تک رہ گزار ہے کیا ہے
کوئی آہٹ تلک نہیں ہوتی
میرے اندر مزار ہے کیا ہے
ایک پل بھی نہیں مرا اپنا
زندگانی ادھار ہے کیا ہے
میرے ہمدم ذرا بتا مجھ کو
یہ جوانی خمار ہے کیا ہے
ہے جو مجھ سے اسدؔ گریزاں سا
مصلحت کا شکار ہے کیا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain