کہا تھا نا ! یہ خاموشی تعلّق بانجھ کر دے گی تمنّا کی جڑوں میں نامُرادی بو گئی آخر ! مِرے ہر خواب کے اِمکان پر حیرت کا پہرا تھا زمیں زادی ستارہ تکتے تکتے سو گئی آخر یہ کیسے رَنج کی زردی گُھلی ہے کوچہءجاں میں تو کیا, اے دوست ! تیری آرزُو بھی کھو گئی, آخر؟