مثال دست زلیخا تپاک چاہتا ہے یہ دل بھی دامن یوسف ہے چاک چاہتا ہے دعائیں دو مرے قاتل کو تم کہ شہر کا شہر اسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے ذرا سی گرد ہوس دل پہ لازمی ہے فرازؔ وہ عشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے احمد فراز
عورت یوں تو حسین ترین مخلوق ہے لیکن اُس سے بھی خوبصورت گر کوئی ہے تو وہ، اپنی لٹوں کو کانوں کے پیچھے سنوار کے، کتاب ہاتھ میں لئے دنیا و مافیہا سے بے خبر پڑھنے میں مشغول ہوئی عورت ہے۔ ذہانت عورت کے حسن کو چار چاند لگا دیتی ہے اور بصیرت صدیوں تک نسلوں میں سفر کرکے عورت کے حسن کو دوام بخشتی ہے۔
آپ کو محبت کی بات نہیں کرنی چاہیے، بلکہ محبت سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ تمام راہب شہوت انگیز باتوں میں اچھے ہوتے ہیں۔ اور انصاف کی بات نہ کرو بلکہ انصاف سے بات کرو کیونکہ ظالموں کی طرح انصاف کی بات کرنا اچھی بات نہیں۔
یہ سناٹے بھی مجھ سے اپنے دل کے راز کہتے تھے ابھی کچھ روز پہلے، آشنا ماحول میں، ان بارشوں سے، راستوں سے، موسموں سے اور سناٹوں سے، ہم ایک دوستانہ ربط رکھتے تھے مگر اب ہر طرف ایک، ایک غیر مانوس اجنبیت شک کی دیواریں اٹھائے سو رہی ہیں کسی نامہرباں لمحے پہ اپنے رو رہی ہے فضا میں ایک فصلِ نامیدی بو رہی ہے ہماری لال شریانوں کو نیلا کرنے والے کون ہیں اور جسم میں یہ زہر کس نے بھر دیا ہے ہمیں مشکوک کس نے کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔
ہمیں مشکوک کس نے کر دیا ہے ہماری لال شریانوں میں نیلا زہر کس نے بھر دیا ہے یہ موسم اس قدر نا مہربان کیوں ہو گئے ہیں یہ بارش میرے کپڑوں کو بھگوتی کیوں نہیں ہے یہ رستے مجھ سے کھل کر بات کرتے کیوں نہیں ہیں یہ سناٹے مجھے چپکے سے کیوں راز اپنے بتلاتے نہیں ہے ابھی کچھ روز پہلے تک یہ بارش میرے کپڑوں کو بھگوتی تھی یہ موسم مہرباں تھے اور یہ رستے مجھ سے کھل کر بات کرتے تھے یہ سناٹے بھی مجھ سے اپنے دل کے راز کہتے تھے
محبت کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہیں ۔ کچھ آپ کی روح کے لیئے تڑپتے ہیں کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں ۔ کچھ کو سمجھ سوچ ادراک کی سمتوں پر چھا جانے کا شوق ہوتا ہے محبت چھلاوہ ہے لاکھ روپ بدلتی ہے ًراجہ گدھ سے اقتباس