زلف عنبریں کو دھوپ کی حدت پہ ڈال کر لو آ گئے ہیں۔۔۔۔۔ ہجر سے ہستی نکال کر!! کار جہاں میں ملنا،بچھڑنا تو ریت ہے لیکن صنم وفاؤں کا کچھ تو خیال کر!! خاموش اٹھ چلے ہیں تیری بزم ناز سے ساری شکستگی کو یوں کاندھے پہ ڈال کر!! جب تک رہا میسر ،اوقات نہ تھی میری اب جا چکا ہوں دلبر، اب نہ ملال کر!! قلب حزیں سے میرے پھوٹا ہے ایک چشمہ آہ و فغاں کو میری۔۔۔۔۔۔ بحر جمال کر!!