انوکھی وضع سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کونسی بستی کے یا رب، رہنے والے ہیں جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے زمیں کھا گٔیٔ نوجواں کیسے کیسے اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا اسی پہ سکندر فاتح بھی ہارا ہر ایک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا جوانی میں پھر تجھ کو مجنوں بنایا بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا