انسان کہنے کو تو کتابوں کی طرح ھوتے ہیں۔ اچھے برے اعلی گھٹیا۔ مگر یہ کتابوں سے زیادہ مشکل ھوتے ہیں۔ کیوں کے اکثر ان کے مضامین وہ نہیں ھوتے جو یہ اپنے بارے میں بتاتے ہیں۔
تیتے بخت جو ھوئے تو رکھ سکھدائے کدی کوئی ڈھولا کدی کوئی ڈھولا۔ میں تے ڈاندائے آن مصیبتہ دا کدی کوئی شولا کدی کوئی شولا۔ تیری کرن فراز زیارت آندائے کدی کوئی ٹولا کدی کوئی ٹولا۔ میرے نال حالات وی مخلص نئی کدی کوئی رولا کدی کوئی رولا۔
رخصت ھوئے تو آنکھ ملا کر نہیں گئے۔ وہ کیوں گئے ہیں یہ بھی بتا کر نہیں گئے۔ یوں لگ رہا ہیں جیسے ابھی لوٹ آئے گے۔ جاتے ھوئے چراغ بجھا کر نہیں گئے۔ مس یو بابا جانی
فباائالہ ربکما تکذبان۔ یہ سردی یہ گرمی یہ بارش یہ دھوپ۔ یہ چہرہ یہ قد اور یہ رنگ روپ۔ درندوں چرندوں۔ پہ قابو دیا۔ تجھے بھائی دے کر کے بازوں دیا۔ بہن دی تجھے اور شریک حیات۔ یہ رشتے یہ ناتے گھرانہ یہ گھر۔ کے اولاد بھی دی دئے والدین۔۔ا ل م ق اور ع غ۔ اور اس پر کتاب ہدایت بھی دی۔ نبی بھی اتارے شریعت بھی دی۔ غرض کے سبھی کچھ ہیں تیرے لئے۔ بتا کیا کیا تو نے میرے لئے۔
زمیں پر تجھے اب دانا دیا۔ ملے آبشاروں سے بھی حوصلے۔ پہاڑوں میں تجھ کو دئے راستے یہ پانی ھوا اور یہ شمس کمر۔ یہ موجیں روا یہ کنارہ بھنور۔ یہ شاخوں پہ غنچھے چٹھکتے ھوئے۔ فلک پہ ستارے چمکتے ھوئے یہ سبزے یہ پھولوں بھری کیاریاں۔ یہ پنچھی یہ اڑتی ھوئی تتلیاں۔ یہ شولا یہ شبنم یہ مٹی یہ دھول۔ یہ جھرنوں کے بجتے ھوئے جلترنگ۔ یہ جھیلوں میں ہنستے ھوئے سے کنول۔ یہ دھرتی پہ موسم کی لکھی غزل۔
میرے رب کی مجھ پر عنایت ھوءی کہو بھی تو کیسے عبادت ھوءی حقیقت ھوئی جیسے مجھ پہ عیاں۔ قلم بن گیا ہیں خدا کی زباں۔ مخاطب ہیں بندے سے پروردگار۔ تو ہی حسن چمک تو ہی رنگ بہار۔ تو ہی مراج فن تو ہی فن کا سنگھار۔ مصور ھو میں تو میرا شہکار۔ یہ صبح یہ شامیں یہ دن اور رات۔ یہ رنگین دلکش حسین کائنات کے حورو ملائک اور جنات میں۔ کیا ہیں تجھے اشرفلمخلوقات میری عظمتوں کا حوالہ ہیں تو۔ تو ہی روشنی اجالا ہیں تو فرشتوں سے سجدہ بھی کروا دیا کے تیرے لئے میں نے کیا نہ کیا۔ یہ دنیا جہاں بزم آرائیاں یہ محفل یہ میلے یہ تنہائیاں۔
یہ عبارت چرچ کے اک گیٹ پر تحریر تھی ۔تھک چکے ھو گر گناہوں سے تو اندر اءیں ۔ اس کے نیچے ہی لب اسٹک سے کسی نے لکھ دیا۔ اور اگر اب تک نہیں تھکے تو اندر اءیں