تیکوں پیار کراں میں رج رج کے,کراں قائم مثال وفا دی کوئی قیمت"سجن"کیا ڈیسی تیڈی ھک ھک یار ادا دی جتھے روز توں پیر رکھیندا ھیں بن خاک ونجاں اس جاہ دی بھلا کیوں نہ میں تیڈے ناز اٹھاواں چنگا لگدیں قسم خدا ڈینہ
غربت دی یارمسیت دے وچ دکھاں جدن امام بنایا، وت صبردے یار مصلےتے اساں ہر لگدا آزمایا، اساں پڑھ کےفرض غریبی دے پچھاں جدن سلام ولایا، خالی سنگت دی صف تے ٹوپیاں دسیاں ہک سجن وی نظرنہ آيا"
خفا ہونا مَنا لینا، یہ صدیوں سے روایت ہے، محبت کی علامت ہے، گِلے شکوے کرو مجھ سے، تمھیں اِس کی اجازت ہے، مگر یہ یاد رکھنا تم، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، ہوائیں رُخ بدلتی ہیں، خزائیں لوٹ آتی ہیں، خطائیں ہو بھی جاتی ہیں، خطا ہونا بھی ممکن ہے، مگر یوں ہاتھ سے دامن کبھی، چھوڑا نہیں کرتے، تعلق ٹوٹ جانے سے، کبھی ٹوٹا نہیں کرتے...
بھول جاتا ہوں ملنے والوں کو خود سے پھرتا ہوں بے خبرکتنا اُس نے آباد کی ہے تنہائی ورنہ سُنسان تھا یہ گھر کتنا وہ مجھے یاد کر کے سوتا ہے! اُس کو لگتا ہے خُود سے ڈر کتنا عادتیں سب بُری ہیں محسنؔ کی اچھّا لگتا ہے وہ مگر کتنا!
تُو غزل اوڑھ کے نکلے یا دھنک اوٹ چُھپے لوگ جس روپ میں دیکھیں تجھے پہچانتے ہیں یار تو یار ہیں اغیار بهی اب محفل میں میں تیرا ذکر نہ چھیڑوں تو بُرا مانتے ہیں کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو شہر والے میرا موضوعِ سُخن جانتے ہیں
لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل جھومر ہے تیرا چاند ــ ســتارے تیرا آنچل اَب تک میری یادوں میں ہے رنگوں کا تلاطم دیکھا تھا کبھی ــ جھیل کنارے تیرا آنچل لپٹے کبھی شانوں سے کبھی زُلف سے اُلجھے کیوں ڈُھونڈھتا رہتا ہے ــ سہارے تیرا آنچل مہکیں تیری خوشبُو سے دہکتی ہُوئی سانسیں جب تیز ہوا ــ خود سے اُتارے تیرا آنچل آنچل میں رَچے رنگ نِکھاریں تیری زُلفیں اُلجھی ہوُئی زُلفوں کو ــ سنوارے تیرا آنچل اس وقت ہے تتلی کی طرح دوشِ ہوَا پر اس وقت کہاں ــ بس میں ہمارے تیرا آنچل کاجل تیرا بَہہ بَہہ کے رُلائے مجھے اَب بھی رَہ رَہ کے مجھے اَب بھی ــ پُکارے تیرا آنچل