درد دل میں ہو تو دعا کیجیے
جب دل ہی درد ہو تو کیا کیجے
اُداسیوں کا یہ موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا ، تو میرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ شخص ! تو نے جسے چھوڑنے میں جلدی کی
تیرے مزاج کے سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا
وہ جلد باز خفا ہو کے چل دیا، ورنہ
تنازعات کا کچھ حل نکل بھی سکتا تھا
آتا نے ہاتھ اُٹھانے نہیں دیا ، ورنہ میری دعا ہے، وہ پتھر پگھل بھی سکتا تھا
تمام عمر ترامنتظر رہا محسن
یہ اور بات کہ ، رستہ بدل بھی سکتا تھا
(محسن نقوی)
رونا چاہوں تو آنسوں نا آئیں ایسی ہے تنہائی
بھید دل میں ڈھانپیے، راز کو چھپائیے
ساتھ تو نبھا نہیں، قول تو نبھائیے
تہمتیں ،ملامتیں ،میرے در پہ ڈال کر
آپ رنگ اوڑھیے، آپ گنگنائیے
سیماب ظفر
اتنا چیخا ہوں کہ خاموش ہو گیا ہوں
تو میرا آخری دوست ہے یار
تیرے بعد میں بھلا دیا جاؤں گا
بہت مختصر تھی زندگی
مگر بہت طویل گزری ہے
تو مجھے کام کے وقت یاد آتا ہے اب تو
فرصت میں تیری یاد سے فرصت نہیں ہوتی
یہ عشق لگ جائے جس کو۔ پھر
اس کو دوا لگے نا دعا لگے
کبھی غموں کا سبب تھا میرا اکیلا پن..!!
پر
اب ہجوم میں بھی رہ کر اُداس رہتا ہوں..!!
اور
خدا ہی جانے ہمیں کون سی اذیّت ہے..!!
ورنہ
سبھی کو "خوش رہو" کہہ کر اُداس رہتا ہوں..!!
پھر یہ بات میری سمجھ میں آئی
وقت کے ساتھ لوگ بدلے جاتے ہیں
تم نے پہچانا مجھ کو
آئینے سے پوچھنا پڑتا ہے
تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے بعد
میرے کیا حال ہوا ہے میں کیسا ہوں
وحشت تو یہ بھی ہے کہ مجھے خود سے بھی نفرت ہے۔
ویران آنکھوں کے نیچے بڑے بڑے سیاہ حلقے
ہلکی ہلکی سی جھریاں
سیاہ پڑتا رنگ
بد رنگ ہوتے سوکھے بال
سیاہی مائل خشک پپڑی زدہ ہونٹ
دن بدن خراب ہوتی صحت
دل و دماغ کی تباہ حالت
وحشت زدہ سا دل
بےحس دماغ
مجھ میں کچھ بھی تو ایسا باقی نہیں
جس کی بنا پر میں تمہیں کہہ سکوں
کہ مجھ سے محبت کرو🩶
ہرکوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
جا ،خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے
یہ قناعت ہے، اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
احمد فراز
اشک لکھتی ، کوئی تحریر بنا کر دیتا
میں تجھے ہجر کی تصویر بنا کر دیتا
ایک حسرت ھے کہ پہلے تیری آنکھیں بنتی
پھر تجھے خواب کی تعبیر بنا کر دیتا
سڑکوں پہ گھُومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
کس دیکھائے جائیں یہاں زخم دل کے۔
کون مرہم لگاتا ہے کون رفو کرتا ہے
میں تیری تلاش میں اب تک بھٹک رہا ہوں
خراب رکھا میں نے جو اپنا حال مسلسل
رہے گا مجھ کو اس بات کا ملال مسلسل
بدل ہی جاتے ہیں لوگ وقت کے ساتھ اکثر
یہاں کوئی بھی نہیں رہتا ہم خیال مسلسل
جو زندگی کچھ دن بھی نہیں گزار سکے آپ
میں نے گزاری ہے وہ پچیس سال مسلسل
خدا نے چاہا تو میرا بھی وقت بھی بدلے گا
کسی پہ کب رہتا ہے یہاں زوال مسلسل
میں چھوڑ دوں گا اک روز زندگی کو عاصم
بنی ہوئی ہے جو جان کا وبال مسلسل
عاصم نثار
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain