بحر فنا میں اتر گیا ہے تو
خوشی یہ ہے مجھے برباد کر گیا ہے تو
بہت کمین بہت ہی ذلیل نکلا تو
کہ قاتل دل و جان کا وکیل نکلا تو
تجھے نابوت کی غزلیں سنانے والا ہوں
میں بہت جلد تمہارے پاس انے والا ہوں🪦
جون ایلیاء
ویسے تو ہر چیز فنا کی جانب چلتی ہے
زندہ رہ کر مر جانے کا مطلب جانتے ہو
ساری باتیں کہہ دیتے ہو کس آسانی سے
کیا تم میرے چپ رہنے کا مطلب جانتے ہو
شاید کل یا پرسوں
شاید ان گنت سالوں بعد
شاید کسی شام ہم غیر ارادی طور پر گزرتی ہوئی
سڑک پر مل جائیں
میں درد کا گاہگ ہوں سو بہتان تراشو
بہتان بھی ایسا کہ کمر توڑ کے رکھ دے
اک درد اٹھے پیر کے ناخن سے اچانک
اور جسم سے ہوتا ہوا سر توڑ کے رکھ دے
یہ غریبی کی آخری شکل ہے شاید
تو بھی میرے ہاتھ سے جا ریا ہے
ایک تم ہی نہیں ہو رات کے گھائل فرحت
خاک ہماری بھی اڑتی ہے ادھر شام کے بعد