حسن اس کا نہ کُھل سکا محسن
🔥🔥
تھک گئے لوگ شاعری کرتے
سمجھدار ہی کرتے ہیں غلطیاں صاحب
🔥🔥🔥
کبھی کسی پاگل کو دیکھا ہے محبت کرتے
کتنی ظالم ہوتی ہے یہ پل دو پل کی محبت
🔥🔥
نہ چاہتے ہوئے بھی دل کو کسی کا انتظار رہتا ہے 😢
کسی کے مر جانے سے شروع ہوتی ہے محبت
🔥🔥
گویا کہ عشق زندہ دلوں کا کام نہیں
پھولوں کی نمائش میں اگر وہ بھی ہوا تو
🔥🔥
اک بار گلابوں کو بڑی آگ لگے گی😘😘
کوئی بتا سکتا ہے 😕😕
بھاڑ میں جانے کا راستہ کہاں ہے 🤔🤔😢؟؟
میری روح ترستی ہے تیری خوشبو کو
🔥🔥
تم کہیں اور جو مہکو تو درد ہوتا ہے
کب تک ترستے رہیں گے تجھے پانے کی حسرت میں؟
🔥🔥🔥🔥🔥
دے کوئی ایسا زخم کہ میری سانس ٹوٹ جائے اور تیری جان چھوٹ جائے
ناکامیوں نے اور بھی سرکش بنا دیا
🔥🔥🔥
اتنے ہوئے ذلیل کہ خوددار ہوگئے
زندگی اپنی جب اس رنگ سے گزری غالب
🔥🔥🔥🔥
🔥🔥🔥🔥
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
🔥🔥🔥
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
Nimaz time
کیا ستم ہے کہ اب تیری صورت
🔥🔥🔥
غورکرنے پہ یاد آتی ہے ۔
میرے اندر ہی تو کہیں گم ہے
🔥🔥🔥🔥
🔥🔥🔥🔥
کس سے پوچھوں ترانشاں جاناں۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
🔥🔥🔥🔥
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
Good afternoon 
Jumma Mubarik ho
اب مجھ کو کو ئی دِلا ئے نہ محبت کا یقین
🔥🔥
جو مجھے بُھو ل نہیں سکتے تھے وہی بُھو ل گئے
بن بتائے وہ چھوڑ گیا مجھ کو
پھر بھی لگتا ہے کہ ہم پھر ملیں گے
اگر مرجا جائے تو نہیں کھلتے بار بار
ہم وہ پھول ہے فقط اس کے ہاتھوں میں کھلے گے
اگر نہ مل سکے میرا پتہ کہی سے
جن کا نہ ملے وارث ان لاشوں میں ملے گے
کبھی احساس ہو ہمارا تو چلے آنا عاقِب
تب ہم تمہیں قبر کی دیواروں میں ملے گے
عاقب جاوید
کوئی بھی آدمی پورا نہیں ہے
کہیں آنکھیں، کہیں چہرا نہیں ہے
یہاں سے کیوں کوئی بیگانہ گزرے
یہ میرے خواب ہیں رستہ نہیں ہے
جہاں پر تھے تری پلکوں کے سائے
وہاں اب کوئی بھی سایا نہیں ہے
زمانہ دیکھتا ہے ہر تماشہ
یہ لڑکا کھیل سے تھکتا نہیں ہے
ہزاروں شہر ہیں ہمراہ اس کے
مسافر دشت میں تنہا نہیں ہے
یہ کیسے خواب سے جاگی ہیں آنکھیں
کسی منظر پہ دل جمتا نہیں ہے
جو دیکھو تو ہر اک جانب سمندر
مگر پینے کو اک قطرہ نہیں ہے
مثالِ چوبِ نم خوردہ، یہ سینہ
سلگتا ہے، مگر جلتا نہیں ہے
خدا کی ہے یہی پہچان شاید
کہ کوئی اور اس جیسا نہیں ہے
چھوڑ جانے کو مری راہ میں آتا کیوں ہے
آ ہی جاتا ھے تو پھر چھوڑ کے جاتا کیوں ھے
آسرا اجنبی دیوار بھی دے دیتی ھے
یار شانے سے مرا ہاتھ ہٹاتا کیوں ھے
روز ہاتھوں سے ترے گر کے فنا ہوتا ھوں
دشتِِ ہستی سے مرا نقش اٹھاتا کیوں ھے
کس سے پوچھوں کہ شبِ ماہ نہ آنے والا
چاندنی بھیج کے اُمّید جگاتا کیوں ہے
میں تو ویسے ہی تجھے مٹ کے ملا کرتا ھوں
دل کے شیشے سے مرا عکس مٹاتا کیوں ہے
رائگانی میں کئی بار خدا سے پوچھا
میں اگر کچھ نہیں بنتا تو بناتا کیوں ہے
اب تو اُس آخری انکار کو مدت گذری
اب بھی اُس حسنِ جفا کیش سے ناتا کیوں ہے
لے پھر اب خود ہی اُٹھا قضیہء دین و دنیا
میری جب سُنتا نہیں ، بیچ میں لاتا کیوں ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain