میں ڈوبا تو سمندر کو بھی حیرت ہوئی مجھ پر
عجیب شخص ہے کسی کو پکارتا ہی نہیں
کبھی لگتا ہے پتھر بن گی ہوں میں
کبھی یونہی ٹوٹ کر رونے کو من کرتا ہے
کرو گے ایک دن تم بھی ہم سے ملنے کی آرزو
پاؤ گے ہم کو بس کبھی خیالوں میں کبھی سوالوں میں
کیا ملے گا دِل میں نفرت رکھ کے
تھوڑی سی زندگی ہے ہنس کے گزاردے"
میرا عشق محتاج نہیں تیرے وجود کا
تیرا خیال کافی ہے میرے عشق کی افزائش کے لیے