Damadam.pk
anusinha's posts | Damadam

anusinha's posts:

anusinha
 

دیکھو، نظریں اٹھاؤ اپنی، چہرہ دیکھو اپنا۔"
وہ اب اسے کالر سے کھینچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار آئینے میں اپنے آپ کو دیکھے بغٖیر بھی جانتا تھا کہ وہ اس وقت کیسا نظر آ رہا ہو گا۔ گہرے حلقوں اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ وہ کیسا نظر آ سکتا تھا۔ رہی سہی کسر ان مہاسوں اور ہونٹوں پر جمی ہوئی پٹریوں نے پوری کر دی تھی جو بے تحاشا کافی اور سگریٹ پینے کا نتیجہ تھے۔ مہاسوں کی وجہ سے اس نے روز شیو کرنی بند کر دی تھی۔ کچھ ناراضی کےعالم میں اس نے کامران سے اپنا کالر چھڑایا اور آئینے پر نظریں دوڑائے بغیر باتھ روم سے نکلنے کی کوشش کی۔
"لعنت برس رہی ہے تمہاری شکل پر۔"
لعنت وہ لفظ تھا جو کامران اکثر استعمال کیا کرتا تھا سالار نے پہلے کبھی اس لفظ کو محسوس نہیں کیا تھا مگر اس وقت کامران کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ جیسے بھڑک اٹھا تھا۔

anusinha
 

میں ابھی کر دیتا ہوں۔" سالار نے سردمہری کے عالم میں چیزیں اٹھاتے ہوئے کہا۔
"تم اس طرح رہنے کے عادی تو نہیں تھے اب کیا ہوا ہے؟"کامران بہت پریشان تھا۔ کامران نے اچانک ایک میز پر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ایش ٹرے کے پاس جا کر سگریٹ کو ٹکڑوں کو سونگھنا شروع کر دیا۔ سالار نے چبھتی ہوئی تیز نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ کامران نے چند لمحوں کے بعد وہ ایش ٹرے نیچے پٹخ دیا۔
"Salar! What are you up to this time? "
"مجھے صاف صفاف بتاؤ، مسئلہ کیا ہے۔ ڈرگز استعمال کر رہے ہو تم؟"
"نہیں، میں کچھ استعمال نہیں کر رہا۔" اس کے جواب نے کامران کو خاصا مشتعل کر دیا۔ وہ اسے کندھے سے پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے باتھ روم کے آئینے کے سامنے لے آیا۔
"شکل دیکھو اپنی، ڈرگ ایڈکٹ والی شکل ہے یا نہیں اور حرکتیں تو بالکل ویسی ہی ہیں۔

anusinha
 

اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں تمہاری؟"
"ٹھیک ہیں۔"
اسے سفر کے دوران بھی اسی طرح کے جواب ملتے رہے تھے۔ یہ اس کے اپارٹمنٹ کی حالت تھی جس نے کامران کے اضطراب کو اتنا بڑھایا تھا کہ وہ کچھ مشتعل ہو گیا تھا۔
"یہ تمہارا اپارٹمنٹ ہے سالار۔۔۔۔۔ مائی گاڈ۔"سالار کے پیچھے اس کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی وہ چلا اٹھا تھا۔ سالار اپنی چیزوں کو جس طرح منظم رکھنے کا عادی تھا وہ نظم و ضبط وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہاں ہر چیز ابتر حالت میں نظر آ رہی تھی۔ جگہ جگہ اس کے کپڑے، جرابیں اور جوتے بکھرے پڑے تھے۔ کتابوں ، اخباروں اور میگزینز کا بھی یہی حال تھا۔ کچن کی حالت سب سے بری تھی اور باتھ روم کی اس سے بھی زیادہ۔ کامران نے کچھ شاک کی حالت میں پورے اپارٹمنٹ کا جائزہ لیا۔
"کتنے ماہ سے تم نے صفائی نہیں کی ہے؟"

anusinha
 

کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
چار دن کے بعد اس نے کامران کو ائیر پورٹ سے ریسیو کیا۔ وہ سالار کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
"تم بیمار ہو؟" اس نے چھوٹتے ہی سالار سے پوچھا۔
"نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔" سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
"لگ تو نہیں رہے ہو۔" کامران کی تشویش میں کچھ اور اضافہ ہونے لگا۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتا تھا، آج خلاف معمول وہ آنکھیں چرا رہا تھا۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی وہ بہت غور سے سالار کو دیکھتا رہا۔ وہ بے حدا حتیاط سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ کامران کو حیرانی ہوئی وہ اس قدر ریش ڈرائیو کرتا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے بڑے سے بڑا جی دار آدمی ڈرتا تھا۔ کامران کو یہ ا یک مثبت تبدیلی لگی تھی مگر یہ واحد مثبت تبدیلی تھی جو اس نے محسوس کی تھی، باقی تبدیلیاں اس کو پریشان کر رہی تھیں۔

anusinha
 

وہ ایک بار پھر چلایا اور پھر اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پیا اور اس وقت پہلی بار اسے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں، ان کی نظروں کا احسا س ہوا، وہ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک ویٹر اس کی طرف آ رہا تھا، اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
"آپ کی طبیعت ٹھیک ہے سر!"
سالار نے کچھ بھی کہے بغیر اپنا والٹ نکالا اور چند کرنسی نوٹ ٹیبل پر رکھ دئیے۔ ایک لفظ بھی مزید کہے بغیر وہ ریسٹورنٹ سے نکل گیا۔
وہ امامہ نہیں تھی، ایک بھوت تھا جو اسے چمٹ گیا تھا۔ وہ جہاں جاتا وہ وہاں ہوتی۔ کہیں اس کا چہرہ، کہیں اس کی آواز اور جہاں یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں وہاں سالار کا پچھتاوا ہوتا۔ وہ ایک چیز بھولنے کی کوشش کرتا تو دوسری چیز اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی، بعض دفعہ وہ اتنا مشتعل ہو جاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ اسے دوبارہ ملے تو وہ اس کا گلا دبا دے یا اسے شوٹ کر دے۔

anusinha
 

اس نے پانی کے چند گھونٹ پیتے ہوئے اپنے ذہن سے اس چہرے کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس نے چند گہرے سانس لئے۔ ویٹر نے اپنا کام کرتے کرتے اسے غور سے دیکھا مگر سالار کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
"آج موسم بہت اچھا ہے اور میں یہاں اچھے لمحے گزارنے آیا ہوں، ایک اچھا کھانا کھانے آیا ہوں، اس کے بعد میں یہاں سے ایک فلم دیکھنے جاؤں گا، مجھے اس لڑکی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے، کسی بھی طرح نہیں۔ وہ پاگل تھی، وہ بکواس کرتی تھی اور مجھے اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہئیے۔ مجھے کیا پتا وہ کہاں گئی، کہاں مری، یہ سب اس نے خود کیا تھا۔ میں نے صرف مذاق کیا تھا اس کے ساتھ۔ وہ مجھ سے رابطہ کرتی تو میں اسے طلاق دے دیتا۔"
لاشعوری طور پر خود کو سمجھاتے سمجھاتے ایک بار پھر اس کا پچھتاوا اس کے سامنے آنے لگا تھا۔

anusinha
 

سعد نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے کہا۔
"سعد! تم خواہ مخواہ دوسروں کی ذمہ داری اپنے سر پر مت لو۔ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو، پھر دوسروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو تاکہ کوئی تمہیں منافق نہ کہہ سکے اور جہاں تک اللہ کے معاف کر دینے کا تعلق ہے تو اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ تمہاری غلطیوں کو معاف کر سکتا ہے تو پھر وہ ہمیں بھی معاف کر سکتا ہے۔ ہمارے گناہوں کے لئے تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے سے تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہو گا اور تم اپنے گناہوں سمیت اللہ کے قریب ہو جاؤ گے تو ایسا نہیں ہو گا۔ بہتر ہے تم اپنا ٹریک ریکارڈ ٹھیک کرو، صرف اپنے آپ کو دیکھو، دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش نہ کرو،ہمیں برا ہی رہنے دو۔"
اس نے ترشی سے کہا۔ اس لمحے اس کے دل میں جو آیا اس نے سعد سے کہہ دیا۔ جب وہ خاموش ہوا تو سعد اٹھ کر چلا گیا۔

anusinha
 

۔ جھوٹ بولنا، شراب پینا، زنا کرنا، کلب میں جانا۔۔۔۔۔ غیبت کرنا، دوسروں کا مذاق اڑانا، حالانکہ ویسے تم بڑے نیک ہو، تم نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، تم ہمارا دماغ کھا جاتے ہو اسلام کی باتیں کر کر کے۔ زبردستی نماز پڑھانے پر تلے رہتے ہو، ہر بات میں مذاہب کا حوالہ لے آتے ہو۔ یہ آیت اور وہ حدیث۔۔۔۔۔ وہ آیت اور یہ حدیث۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ تمہاری زبان پر اور کچھ ہوتا ہی نہیں اور جب میں تمہارا عمل دیکھتا ہوں تو میں ذرہ بھر بھی تم سے متاثر نہیں ہوتا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے اسلام کے بارے میں تمہارا لیکچر سننا، میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔ مجھ میں اور تم میں زیادہ فرق تو نہیں ہے۔ تم داڑھی رکھ کر اور اسلام کر کر کے وہ سارے کام کرتے ہو جو میں ڈارھی کے اور اسلام کی بات کئے بغیر کرتا ہوں۔ عبادت نے کیا انقلاب برپا کیا ہے تمہاری زندگی میں،

anusinha
 

اپنے منگیتر کے ہوتے ہوئے اس کے لئے گھر سے بھاگ بھی گئی۔ اسے ضرورت پڑی تو اس نے ایک ایسے شخص کی بھی مدد لی جسے وہ برا سمجھتی تھی یعنی اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا، ان محترمہ پارسا خاتون نے۔" اس کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔
"اس کے بعد میں ایک اور آدمی سے ملا جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ بڑا پکا اور سچا قسم کا مسلمان تھا وہ بھی لیکن اس نے اس لڑکی کی مدد نہیں کی، جس نے اس سے بھیک مانگنے کی حد تک مدد مانگی تھی۔ اس نے اس لڑکی سے شادی نہیں کی جسے وہ محبت کے نام پر بے وقوف بناتا رہا اور ابھی کچھ عرصہ پہلے میں یہاں امریکہ میں اس سے ملا تو اس کی داڑھی بھی غائب ہو چکی تھی، شاید اس کے اسلام کے ساتھ۔"
وہ ہنسا۔" اور تیسرے تم ہو۔۔۔ تم پورک نہیں کھاتے صرف یہ ایک حرام کام ہے جو تم نہیں کرتے، باقی سب تمہارے لئے جائز ہے۔

anusinha
 

اچھے کاموں یا کردار کا تعلق عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ہو تا۔"
سعد نے اس کی بات کاٹ دی۔" میں اسی لئے تم سے کہتا ہوں کہ اپنے مذہب میں کچھ دلچسپی لو اور اسلام کے بارے میں کچھ علم حاصل کرو تاکہ اپنی اس غلط قسم کی فلاسفی اور سوچ کو بدل سکو۔"
"میری سوچ غلط نہیں ہے، میں نےمذہبی لوگوں سے زیادہ چھوٹا، منافق اور دھوکے بار کسی کو نہیں پایا۔ میں امید کرتا ہوں تم برا نہیں مانو گے، مگر میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ابھی تک مجھے تین ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو بہت مسلمان بنتے ہیں اور اسلام کی بات کرتے ہیں اور تینوں fake(منافق) ہیں۔" وہ بڑی تلخی سے کہہ رہا تھا۔
"سب سے پہلے میں ایک لڑکی سے ملا، وہ بھی بڑی مذہبی بنتی تھی، پردہ کرتی تھی، بڑی پارسا اور پاک باز ہونے کا ڈرامہ کرتی تھی اور ساتھ میں ایک لڑکے کے ساتھ افئیر چلا رہی تھی،

anusinha
 

"مثلاً۔" سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
"تم پورک کھاتے ہو۔"
"کم آن۔" وہ بے اختیار بلبلایا۔" پورک یہاں کہاں آ گیا، تم مجھے ایک بات بتاؤ۔" سالار اٹھ کر بیٹھ گیا۔"تم تو بڑی باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہو، بڑی عبادت کرتے ہو، نماز نے تمہاری زندگی میں کون سی تبدیلیاں کر دیں؟"
"مجھے بے سکونی نہیں ہے۔"
"حالانکہ تمہارے فارمولے کے مطابق تمہیں بھی بے سکونی ہونی چاہئیے، کیونکہ تم بھی بہت سے غلط کام کرتے ہو۔" سالار نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
"مثلاً۔۔۔۔۔ میں کیا غلط کام کرتا ہوں؟"
"تم جانتے ہو، میرے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔"
"میں۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا، تم دہراؤ۔" سعد نے جیسے اسے چیلنج کیا۔
سالار اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔" میں نہیں سمجھتا سعد کہ صرف عبادت کرنے سے زندگی میں کوئی بہت نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے،

anusinha
 

صراطِ مستقیم والی اور پھر تمہیں غصہ آئے گا۔"
"نہیں، مجھے غصہ نہیں آئے گا۔" سعد نے کہا۔
"جب مجھے یہ ہی نہیں پتا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے تو پھر میں نماز کیسے پڑھ سکتا ہوں۔"
"تم نماز پڑھنا شروع کرو گے تو تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے۔"
"کیسے؟"
"تم خود ہی غلط کاموں سے بچنے لگو گے، اچھے کام کرنے لگو گے۔" سعد نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
"مگر میں کوئی غلط کام نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے اچھے کام کرنے کی خواہش ہے۔ میری زندگی نارمل ہے۔"
"تمہیں یہ احساس ہو بھی نہیں سکتا کہ تمہارا کون سا کام صحیح ہے اور کون سا غلط۔ جب تک کہ۔۔۔"سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
"صحیح اور غلط کام میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔ ابھی تو مجھے بس بے سکونی رہتی ہے اور اس کا تعلق میرے کاموں سے نہیں ہے۔"
"تم وہ تمام کام کرتے ہو جو انسان کی زندگی کو بے سکون کر دیتے ہیں۔"

anusinha
 

تم کوئی اینٹی ڈیپریسنٹ لے لیتے۔" سعد نے کہا۔
"میں ان کا ڈھیر کھا چکا ہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔"
"تو تم کسی سائیکاٹرسٹ سے مل لیتے۔"
"میں یہ کام تو کبھی نہیں کروں گا، میں تنگ آ چکا ہوں ان لوگوں سے ملتے ملتے۔ کم از کم اب تو میں نہیں ملوں گا۔" سالار نے بے اختیار کہا۔
"پہلے کس سلسلے میں ملتے رہے ہو تم؟" سعد نے کچھ چونک کر تجسس کے عالم میں پوچھا۔" بہت سی باتیں تھیں، تم انہیں رہنے دو۔" وہ اب چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔
"تو پھر تم ایسا کیا کرو کہ عبادت کیا کرو، نماز پڑھا کرو۔"
"میں نے کوشش کی تھی مگر میں نماز نہیں پڑھ سکتا نہ تو مجھے وہاں کوئی سکون ملا نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ میں جو پڑھ رہا ہوں وہ کیا ہے، کیوں پڑھ رہا ہوں۔"
"تو تم یہ جاننے کی کوشش کرو کہ۔۔۔۔۔"
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔" اب پھر رات والی بحث شروع ہو جائے گی،

anusinha
 

مجھے زندگی میں کبھی اس طرح کا۔۔۔۔۔ اور اس حد تک ڈپریشن نہیں ہوا جس کا شکار میں آج کل ہوں اور میں صرف اس ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے رات نماز پڑھنے کے لئے گیا تھا۔" اس نے بہت ترشی سے کہا۔
"ڈپریشن کیوں ہے تمہیں؟" سعد نے پوچھا۔
"اگر یہ مجھے پرا ہوتا تو مجھے یقیناً ڈپریشن نہ ہوتا۔ میں اب تک اس کا کچھ نہ کچھ کر چکا ہوتا۔"
"پھر بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی، یوں بیٹھے بٹھائے ڈپریشن تو نہیں ہو جاتا۔" سعد نے تبصرہ کیا۔
سالار جانتا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہا ہے، مگر اسے وجہ بتا کر خود پر ہنسنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"کسی دوسرے کے بارے میں تو مجھے پتا نہیں، مگر مجھے تو بیٹھے بٹھائے ہی ہو جاتا ہے۔" سالار نے کہا۔
"تم کوئی اینٹی ڈیپریسنٹ لے لیتے۔" سعد نے کہا۔
"میں ان کا ڈھیر کھا چکا ہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔"

anusinha
 

۔ میں صبح سے بہت پچھتا رہا ہوں۔"
"جانے دو اسے۔" اس نے اسی طرح چہرہ صوفے پر چھپائے کہا۔
"سالار! تمہارے ساتھ آج کل کیا پرابلم ہے؟"
"کچھ نہیں۔"
"نہیں، کچھ نہ کچھ تو ہے۔ کچھ عجیب سے ہوتے جا رہے ہو تم۔"
اس بار سالار یک دم کروٹ بدلتے ہوئے سیدھا ہو گیا۔ چت لیٹے سعد کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
"مثلاً کون سی بات عجیب سی ہوتی جا رہی ہے مجھ میں۔"
"بہت ساری ہیں، تم بہت چپ چپ رہنے لگے ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنے لگے ہو۔ عباد مجھے بتا رہا تھا کہ یونیورسٹی جانا بھی چھوڑا ہوا ہے تم نے اور سب سے بڑی بات کہ مذہب میں دلچسپی لے رہے ہو۔" اس کے آخری جملے سے سالار کے ماتھے پر تیوریاں آ گئیں۔
"مذہب میں دلچسپی؟ یہ تمہیں غلط فہمی ہے۔ میں مذہب میں دلچسپی لینے کی کوشش نہیں کر رہا، میں صرف سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ میں بہت ڈپریس ہوں۔

anusinha
 

شاید میری باتوں سے تم ناراض ہو گئے تھے، میں اسی لئےا یکسکیوز کرنے آیا ہوں۔" سعد نے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
"کون سی باتوں سے؟" سالار نے گردن کو ہلکا سا ترچھا کرتے ہوئے اسی طرح لیٹے سعد سے پوچھا۔
"وہی سب کچھ جو میں نے کچھ غصے میں آ کر رات کو تم سے کہہ دیا۔" سعد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"نہیں ، میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو ناراض نہیں ہو سکتا۔ تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر تمہیں ایکسکیوز کرنے کے لئے یہاں آنا پڑتا۔" سالار نے اسی کے انداز میں کہا۔
"پھر تم اس طرح اچانک میرے اپارٹمنٹ سے کیوں آ گئے؟" سعد بضد ہوا۔
"بس میرا دل گھبرایا اور میں یہاں آ گیا اور چونکہ سونا چاہتا تھا اس لئے answer phone لگا دیا۔"
سالار نے پرسکون انداز میں کہا۔"پھر بھی میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ مجھے تم سے اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہئیے تھی۔

anusinha
 

"ہاں، میں واقعی نہیں سمجھ سکتا۔ لائٹ آف کر دو، مجھے نیند آ رہی ہے۔" اس نے مزید کچھ کہے بغیر آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ تم اپنے اپارٹمنٹ پر ہی ہو گے، صرف تم نے جان بوجھ کر answer phone لگا دیا ہو گا۔"
سعد اگلےب دن دس بجے سالار کے اپارٹمنٹ پر موجود تھا۔ سالار نے نیند میں اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔
"تم اس طرح بغیر بتائے بھاگ کیوں آئے میرے اپارٹمنٹ سے۔" سعد نے اندر آتے ہوئے جھاڑا۔
"بھاگا تو نہیں، تم سو رہے تھے، میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔" سالار نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔
"کس وقت آئے تھے تم؟"
"شاید چار پانچ بجے۔"
"یہ جانے کا کون سا وقت تھا؟" سعد نے تنک کر کہا۔
"اور تم اس طرح آئے کیوں؟" سالار کچھ کہنے کے بجائے لونگ روم کے صوفہ پرجا کر اوندھے منہ لیٹ گیا

anusinha
 

تمہیں نماز میں سکون کہاں سے مل جاتا۔۔۔۔۔ اور تم چاہتے ہو میں تمہیں بتاؤں صراطِ مستقیم کیا ہوتا ہے۔"
وہ بیڈ پر سیدھا لیٹا پلکیں جھپکائے بغیر سعد کو دیکھتا رہا۔
"تمہارے جیسا شخص جو نماز سے بھاگ جاتا ہے، شراب پیتا ہے اور زنا کرتا ہے۔ وہ صراط ِ مستقیم کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے نہ اس پر آ سکتا ہے۔"
"تمہارا مطلب ہے جو شراب پیتے ہیں اور زنا کرتے ہیں مگر نماز سے بھاگتے نہیں، نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، وہ صراطِ مستقیم کا مطلب سمجھتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر ہیں۔"
سعد کچھ بول نہیں سکا۔ مدھم آواز اور بے تاثر لہجے میں کئے گئے ایک ہی سوال نے اسے خاموش کر دیا تھا۔ سالار اب بھی اسی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔
"تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے سالار!" اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ سالار کے کانوں میں ایک جھماکے کے ساتھ ایک دوسری آواز گونج اٹھی تھی۔

anusinha
 

سالار نے بڑے تحمل سے کہا۔
سعد یک دم کچھ مشتعل ہوتے ہوئے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے لیمپ آن کر دیا۔
"تمہارے جیسے آدمی کو میں کیا صراطِ مستقیم سمجھاؤں۔ کیا تم پاگل ہو یا جاہل ہو۔۔۔۔۔ یا غیر مسلم ہو۔۔۔۔۔ کیا ہو۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہو تمہیں خود پتا ہونا چاہئیے کہ صراطِ مستقیم کیا ہوتا ہے مگر تم جیسا آدمی جو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے نماز درمیان میں چھوڑ کر چلا آتا ہے، وہ کیسے جان سکتا ہے یہ۔"
"میں نماز اس لئے چھوڑ کر چلا آیا کیونکہ تم کہتے ہو اس میں سکون ملے گا، مجھے سکون نہیں ملا، میں چھوڑ آیا۔" اس کے پرسکون انداز میں کہے ہوئے جملے نے سعد کو مزید مشتعل کر دیا۔
"تمہیں نماز میں اس لئے سکون نہیں ملا، کیونکہ مسجد تمہاری جگہ نہیں ہے، تمہارے لئے سکون کی جگہیں سینما، تھیٹر، بار اور کلب ہیں۔ مسجد تمہارے لئے نہیں ہے۔

anusinha
 

پھر وہ نائٹ بلب آن کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس نے ابھی آنکھیں بند کی تھیں، جب اس نے سالار کی آواز سنی۔
"سعد!"
"ہاں!" اس نے آنکھیں کھول دیں۔
"یہ "صراطِ مستقیم " کیا ہوتا ہے؟"
سادہ لہجے میں پوچھے گئے سوال نے سعد کو حیران کر دیا۔ اس نے گردن موڑ کر بائیں جانب بیڈ پر سیدھا لیٹے ہوئے سالار کو دیکھا۔
"صراطِ مستقیم۔۔۔۔۔ سیدھے راستے کو کہتے ہیں۔"
"جانتا ہوں مگر سیدھا راستہ کیا ہوتا ہے؟" اگلا سوال آیا۔
سعد نے اس کی طرف کروٹ لے لی۔" سیدھا راستہ۔۔۔۔۔ مطلب نیکی کا راستہ۔۔۔۔۔"
"نیکی کیا ہوتی ہے؟" لہجہ ابھی بھی بے تاثر تھا۔