اس نے آہستگی سے بیگ دوسری طرف پھینک دیا اور پھر کچھ جدوجہد کے بعد خود بھی دیوار پھلانگنے میں کامیاب ہو گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گہری نیند کے عالم میں سالار نے کھٹکے کی آواز سنی تھی پھر وہ آواز دستک کی آواز میں تبدیل ہو گئی تھی۔رُک رُک کر۔۔۔۔۔مگر مسلسل کی جانے والی دستک کی آواز ۔۔۔۔۔وہ اوندھے منہ پیٹ کے بل سو رہا تھا۔دستک کی اس آواز نے اس کی نیند توڑ دی تھی۔
وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا اور بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس نے تاریکی میں اپنے چاروں طرف دیکھنے کی کوشش کی۔خوف کی ایک لہر اس کے اندر سرایت کر گئی۔وہ آواز کھڑکیوں کی طرف سے آ رہی تھی۔یوں جیسے کوئی ان کھڑکیوں کو بجا رہا تھا مگر بہت آہستہ آہستہ۔۔۔۔۔یا پھر شاید کوئی ان کھڑکیوں کو ٹٹولتے ہوئے کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔سالار کے ذہن میں پہلا خیال کسی چور کا آیا تھا ،
بیگ لے کر اپنے کمرے کی لائٹ بند کر کے وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔لاؤنج کی ایک لائٹ کے علاوہ ساری لائٹیں آف تھیں۔وہاں زیادہ روشنی نہیں تھی۔وہ محتاط انداز میں چلتے ہوئے سیڑھیاں اُتر کر نیچے آ گئی اور پھر کچن کی طرف چلی گئی۔کچن تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔وہ محتاط انداز میں چیزوں کو ٹٹولتے ہوئے کچن کے اس دروازے کی طرف بڑھ گئی جو باہر لان میں کھلتا تھا۔عقبی لان کے اس حصے میں کچھ سبزیاں لگائی گئی تھیں اور اس گھر میں کچن کا وہ دروازہ واحد دروازہ تھا جسے لاک نہیں کیا جاتا تھا ، صرف چٹخنی لگا دی جاتی تھی۔دروازہ اس رات بھی لاک نہیں تھا۔وہ آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔کچھ فاصلے پر سرونٹ کوارٹرز تھے ، وہ بےحد محتاط انداز میں چلتے ہوئے لان عبور کر کے اپنے اور سالار کے گھر کی درمیانی دیوار تک پہنچ گئی۔دیوار بہت زیادہ بلند نہیں تھی ،
اس نے سالار کے موبائل پر اس کا نمبر ملایا۔موبائل آف تھا ، کئی بار کال ملائی لیکن اس سے رابطہ نہ ہو سکا۔امامہ نے موبائل بند کر دیا۔اس نے ایک بیگ میں اپنے چند جوڑے ، کپڑے اور دوسری چیزیں رکھ لیں۔اس کے پاس کچھ زیورات اور رقم بھی تھی ، اس نے انہیں بھی اپنے بیگ میں رکھ لیا پھر جتنی بھی قیمتی چیزیں اس کے پاس تھیں ، جنہیں وہ آسانی سے ساتھ لے جا سکتی تھی اور بعد میں بیچ کر پیسے حاصل کر سکتی تھی وہ انہیں اپنے بیگ میں رکھتی گئی۔بیگ بند کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور پھر دو نفل ادا کیے۔
اس کا دل بےحد بوجھل ہو رہا تھا۔بےسکونی اور اضطراب نے اس کے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔آنسو بہا کر بھی اس کے دل کا بوجھ کم نہیں ہوا تھا۔نوافل ادا کرنے کے بعد جتنی آیات اور سورتیں اسے زبانی یاد تھیں اس نے وہ ساری پڑھ لیں۔
گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ اس کی زندگی کے سب سے مشکل اور تکلیف دہ فیصلوں میں سے ایک تھا مگر اس کے علاوہ اس کے پاس اب دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا۔ہاشم مبین احمد اسے کہاں لے جاتے اور پھر کس طرح اسے طلاق دلوا کر اس کی شادی اسجد سے کرتے ، وہ نہیں جانتی تھی۔واحد چیز جو وہ جانتی تھی وہ یہ حقیقت تھی کہ ایک بار وہ اسے کہیں اور لے گئے تو پھر اس کے پاس رہائی اور فرار کا کوئی راستہ نہیں بچے گا۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اسے جان سے کبھی نہیں ماریں گے مگر زندہ رہ کر اس طرح کی زندگی گزارنا زیادہ مشکل ہو جاتا ، جیسی زندگی کی وہ اس وقت توقع اور تصور کر رہی تھی۔
ہاشم مبین احمد کے چلے جانے کے بعد وہ بہت دیر تک بیٹھ کر روتی رہی اور پھر اس نے پہلی بار اپنے حالات پر غور کرنا شروع کیا۔اسے گھر سے صبح ہونے سے پہلے پہلے نکلنا تھا
سوچ کی ایک ہی رُو میں بہت سے متضاد خیالات بہ رہے تھے۔
ناصرہ کچھ دیر اسی طرح بولتی اپنا کام کرتی رہی مگر پھر جب اس نے دیکھا کہ سالار اس کی گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا اور اپنے کام میں مصروف ہو چکا ہے تو وہ قدرے مایوس ہو کر خاموش ہو گئی۔"یہ پہلے محبت کرنے والے تھے ، جن کا رویہ بےحد عجیب تھا۔۔۔۔۔کوئی اضطراب۔۔۔۔۔ بےچینی اور پریشانی تو ان دونوں کے درمیان نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔۔ایک دوسرے کی تکلیف کا بھی سن کر ۔۔۔۔۔شاید امامہ بی بی بھی ان کے بارے میں اس طرح کی کوئی بات سن کر اسی طرح مسکرائیں ، کون جانتا ہے۔"
ناصرہ نے شیلف پر پڑی ایک تصویر اٹھا کر صاف کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ناصرہ اسی طرح بول رہی تھی۔شاید وہ شعوری طور پر یہ کوشش کر رہی تھی کہ سالار اسے اپنا اور امامہ کا حمایتی اور طرف دار سمجھتے ہوئے کوئی راز کہہ دے مگر سالار احمق نہیں تھا اور اسے ناصرہ کی اس نام نہاد ہمدردی سے کوئی دلچسپی تھی بھی نہیں۔اگر امامہ کی پٹائی ہو رہی تھی اور اسے کچھ تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو اس سے اس کا کیا تعلق تھا ، مگر اسے اس صورت ِحال پر ہنسی ضرور آ رہی تھی۔کیا اس دور میں بھی کوئی اس عمر کی اولاد پر ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور وہ بھی ہاشم مبین احمد جیسے امیر طبقے کا آدمی ۔۔۔۔۔حیرانی کی بات تھی۔۔۔۔۔"
بس اس بات پر۔"سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
"یہ کوئی چھوٹی بات تھوڑی ہے جی ، ان کے پورے گھر میں طوفان مچا ہوا ہے۔شادی کی تاریخ طے ہو چکی ہے ، کارڈ آ چکے ہیں اور اب امامہ بی بی بضد ہیں کہ وہ اسجد صاحب سے شادی نہیں کریں گی۔بس اسی بات پر ہاشم صاحب نے ان کی پٹائی کی۔"
"یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ اس پر کسی کو مارا جائے۔"وہ اپنی کتابوں میں مصروف تھا۔
"یہ تو آپ کہہ رہے ہیں نا۔۔۔۔۔ان لوگوں کے لیے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔"ناصرہ نے اسی طرح صفائی کرتے ہوئے تبصرہ کیا۔"میں تو بڑی دکھی ہوں ! امامہ بی بی کے لیے۔بڑی اچھی ہیں ، ادب لحاظ والی۔۔۔۔۔اور اب دیکھیں۔۔۔۔۔کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ان پر۔ہاشم صاحب نے گھر سے نکلنے پر پابندی لگا دی ہے۔میری بیٹی روز ان کا کمرہ صاف کرتی ہے۔۔۔۔۔۔اور وہ بتاتی ہے کہ ان کا تو چہرہ ہی اُتر کر رہ گیا ہے۔"
اس طرح چوری چھپے رشتہ جوڑا ہے ، جب ہم تمہیں اپنے خاندان سے نکال دیں گے اور تم پائی پائی کی محتاج ہو جاؤ گی تو وہ بھی تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا ، تمہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی ، کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا۔"سلمیٰ اب اسے ڈرا رہی تھیں۔"ابھی بھی وقت ہے امامہ ! تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے۔"
"نہیں امی ! میرے پاس کوئی وقت نہیں ہے ، میں سب کچھ طے کر چکی ہوں۔میں اپنا فیصلہ آپ کو بتا چکی ہوں۔مجھے یہ سب قبول نہیں۔آپ مجھے جانے دیں ، اپنے خاندان سے الگ کرنا چاہتے ہیں ، کر دیں۔جائیداد سے محروم کرنا چاہتے ہیں ، کر دیں۔میں کوئی اعتراض نہیں کروں گی مگر میں کروں گی وہی جو میں آپ کو بتا رہی ہوں۔میں اپنی زندگی کے راستے کا انتخاب کر چکی ہوں۔آپ یا کوئی بھی اسے بدل نہیں سکتا۔"
"ایسی بات ہے تو تم اس گھر سے نکل کر دکھاؤ ، میں تمہیں جان سے مار دوں گا
پھر ہاشم مبین احمد جیسے تھک سے گئے اور اسے مارتے مارتے رک گئے۔ان کا سانس پھول گیا تھا۔وہ بالکل خاموشی سے ان کے سامنے دیوار کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔
"تمہارے پاس ابھی بھی وقت ہے ، سب کچھ چھوڑ دو۔اس لڑکے سے طلاق لے لو اور اسجد سے شادی کر لو۔ہم اس سب کو معاف کر دیں گے ، بھلا دیں گے۔"اس بار سلمیٰ نے تیز لہجے میں اس سے کہا۔
"نہیں ، واپس آنے کے لئے اسلام قبول نہیں کیا ،مجھے واپس نہیں آنا۔"امامہ نے مدھم مگر مستحکم آواز میں کہا۔"آپ مجھے اس گھر سے چلے جانے دیں ، مجھے آزاد کر دیں۔"
"اس گھر سے نکل جاؤ گی تو دنیا تمہیں بہت ٹھوکریں مارے گی۔۔۔۔۔تمہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ باہر کی دنیا میں کیسے مگرمچھ تمہیں ہڑپ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔جس لڑکے سے شادی کر کے تم نے ہمیں ذلیل کیا ہے وہ تمہیں بہت خوار کرے گا۔ہمارے خاندان کو دیکھ کر اس نے تمہارے ساتھ
اپنے باپ کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی مگر وہ اپنی کیفیات اور اپنے احساسات انہیں نہیں سمجھا سکتی تھی۔
"تم نے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا ، کسی کو نہیں۔ہمیں زندہ درگور کر دیا ہے تم نے۔"
سلمیٰ اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی تھیں مگر انہوں نے ہاشم مبین کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔وہ خود بھی بری طرح مشتعل تھیں ، وہ جانتی تھیں کہ امامہ کا یہ قدم کس طرح ان کے پورے خاندان کو متاثر کرنے والا تھا اور خاص طور پر ان کے شوہر کو۔
"تم نے ہمارے اعتماد کا خون کیا ہے۔کاش تم میری اولاد نہ ہوتیں۔کبھی میرے خاندان میں پیدا نہ ہوئی ہوتیں۔پیدا ہو ہی گئی تھی تو تب ہی مر جاتی۔۔۔۔۔یا میں ہی تمہیں مار دیتا۔"امامہ آج ان کی باتوں اور پٹائی پر نہیں روئی تھی۔اس نے مدافعت کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔وہ صرف خاموشی کے ساتھ پٹتی رہی
اور نہ ہی سالار نے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
اس سے بات کرنے کے بعد امامہ نے فون بند کر دیا۔اگلے روز دس گیارہ بجے کے قریب کسی وکیل نے فون کر کے ہاشم مبین سے امامہ کے سلسلے میں بات کی اور انہیں امامہ کو زبردستی اپنے گھر رکھنے کے بارے میں اس کے شوہر کی طرف سے کئے جانے والے کیس کے بارے میں بتایا۔ہاشم مبین کو مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی تھی۔وہ غصے میں پھنکارتے ہوئے اس کے کمرے میں گئے اور اسے بری طرح مارا۔
"تم دیکھنا امامہ ! تم کس طرح برباد ہو گی۔۔۔۔۔ایک ایک شے کے لیے ترسو گی تم۔۔۔۔۔جو لڑکیاں تمہاری طرح اپنے ماں باپ کی عزت کو نیلام کرتی ہیں ان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔تم ہمیں کورٹ تک لے گئی ہو۔۔۔۔۔۔تم نے وہ سارے احسان فراموش کر دئیے ، جو ہم نے تم پر کئے۔تمہارے جیسی بیٹیوں کو واقعی پیدا ہوتے ہی دفن کر دینا چاہئیے۔"
وہ بڑی خاموشی سے پٹتی رہی۔
اس نے کمرے کے دروازے کو لاک کر دیا اور موبائل پر سالار کو کال کرنے لگی۔اس نے اسے ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔
"تم ایک بار پھر لاہور جاؤ اور جلال کو میرے بارے میں بتاؤ۔۔۔۔۔میں اب اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔مجھے یہاں سے نکلنا ہے اور اس کے علاوہ میں کہیں نہیں جا سکتی۔تم میرے لئے ایک وکیل کو ہائر کرو اور اس سے کہو کہ وہ میرے پیرنٹس کو میرے شوہر کی طرف سے مجھے حبس بےجا میں رکھنے کے خلاف ایک کورٹ نوٹس بھجوائے۔"
"تمہارے شوہر ، یعنی میری طرف سے۔"
"تم وکیل کو اپنا نام مت بتانا بلکہ یہ بہتر ہے کہ اپنے کسی دوست کے ذریعے وکیل کو ہائر کرو اور میرے شوہر کا کوئی بھی فرضی نام دے سکتے ہو۔تمہارا نام وکیل کے ذریعے انہیں پتا چلے گا تو وہ تم تک پہنچ جائیں گے اور میں یہ نہیں چاہتی۔"
امامہ نے اسے یہ نہیں بتایا کہ اسے کیا خدشہ ہے
وسیم کے پیچھے گھر کے باقی لوگ بھی اندر چلے آئے تھے۔
"اس نے۔۔۔۔۔اس نے شادی کر لی ہے کسی سے۔"ہاشم مبین نے غم و غصہ کے عالم میں کہا۔
"بابا ! جھوٹ بول رہی ہے ، شادی کیسے کر سکتی ہے۔ایک بار بھی گھر سے نہیں نکلی۔"یہ وسیم تھا۔
"چھے ماہ پہلے شادی کر لی ہے اس نے۔"امامہ نے سر نہیں اٹھایا۔
"نہیں ، میں نہیں مانتا۔ایسا نہیں ہو سکتا ، یہ ایسا کر ہی نہیں سکتی۔"وسیم اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔امامہ نے دھندلائی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا اور کہا۔
"ایسا ہو چکا ہے۔"
"کیا ثبوت ہے۔۔۔۔۔نکاح نامہ ہے تمہارے پاس؟"وسیم نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
"یہاں نہیں ہے ، لاہور میں ہے ، میرے سامان میں۔"
"بابا ! میں کل لاہور سے اس کا سامان لے آتا ہوں۔دیکھ لیتے ہیں۔"وسیم نے ہاشم مبین سے کہا۔امامہ بےاختیار پچھتائی۔سامان سے کیا مل سکتا تھا۔
بعد میں بھی تو تمہیں یہاں ہی آنا پڑے گا۔"
"میں دوبارہ کبھی یہاں نہیں آؤں گی ، کسی صورت میں نہیں۔"
"یہ جذباتیت ہے۔"سالار نے تبصرہ کیا۔
"تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔"امامہ نے ہمیشہ کی طرح اپنا مخصوص جملہ دُہرایا۔سالار کچھ جزبز ہوا۔
"اوکے۔۔۔۔۔کرو جو کرنا چاہتی ہو۔"اس نے لاپرواہی سے کہہ کر فون بند کر دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"کل شام کو ہم لوگ اسجد کے ساتھ تمہارا نکاح کر رہے ہیں۔تمہاری رخصتی بھی ساتھ ہی کر دیں گے۔"
ہاشم مبین نے رات کو اس کے کمرے میں آ کر اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔
"بابا ! میں انکار کر دوں گی۔۔۔۔۔آپ کے لئے بہتر ہے آپ اس طرح زبردستی میری شادی نہ کریں۔"
"تم انکار کرو گی تو میں تمہیں اسی وقت شوٹ کر دوں گا ، یہ بات تم یاد رکھنا۔"وہ سر اٹھائے انہیں دیکھتی رہی۔
کال ریسیو نہیں کی گئی۔
پندرہ بیس منٹ کے بعد امامہ نے اسے دوبارہ کال کی۔"اگر تم یہ وعدہ کرتی ہو کہ تم روؤ گی نہیں تو مجھ سے بات کرو ، ورنہ فون بند کر دو۔"سالار نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
"پھر تم لاہور جا رہے ہو۔"اس کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس نے اس سے پوچھا۔سالار کو اس کی مستقل مزاجی پر حیرانی ہوئی۔وہ واقعی ڈھیٹ تھی۔وہ اب بھی اپنی ہی بات پر اٹکی ہوئی تھی۔
"اچھا ، میں چلا جاؤں گا۔تم نے اپنے گھر والوں کو شادی کے بارے میں بتایا ہے۔"سالار نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
"نہیں ، ابھی نہیں بتایا۔"وہ اب خود پر قابو پا چکی تھی۔
"کب بتاؤ گی؟"سالار کو جیسے ڈرامے کے اگلے سین کا انتظار تھا۔
"پتا نہیں۔"وہ کچھ اُلجھی۔"تم کب لاہور جاؤ گے؟"
"بس جلد ہی چلا جاؤں گا۔ابھی یہاں مجھے کچھ کام ہے ورنہ فوراً ہی چلا جاتا۔"
ورنہ اس کے پیرنٹس اتنی جلدی اس کی منگنی کر ہی نہیں سکتے۔"
"تو جب وہ نہیں چاہتا تم سے شادی کرنا اور کانٹیکٹ کرنا۔۔۔۔۔تو تم کیوں خوار ہو رہی ہو اس کے پیچھے۔"
"کیونکہ میری قسمت میں خواری ہے۔"اس نے دوسری طرف سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
"اس کا کیا مطلب ہوا؟"وہ اُلجھا۔
"کوئی مطلب نہیں ہے۔نہ تم سمجھ سکتے ہو۔۔۔۔۔تم بس اسے جا کر کہو کہ میری مدد کرے ، وہ حضرت محمد ﷺ سے اتنی محبت کرتا ہے۔۔۔اس سے کہو کہ وہ آپ ﷺ کے لئے ہی مجھ سے شادی کر لے۔"وہ بات کرتے کرتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
"یہ کیا بات ہوئی۔"وہ اس کے آنسوؤں سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔"کیا یہ بات کہنے سے وہ تم سے شادی کر لے گا۔"
امامہ نے جواب نہیں دیا ، وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔وہ بیزار ہو گیا۔
"تم یا تو رو لو۔۔۔۔۔یا پھر مجھ سے بات کر لو۔"
دوسری طرف سے فون بند کر دیا گیا۔سالار نے فوراً کال کی۔
ملازمہ فوراً گھبرا گئی تھی۔سالار ویسے بھی اتنا اکھڑ مزاج تھا کہ اسے اس سے بات کرتے ہوئے خوف آیا کرتا تھا۔سالار نے کچھ نخوت بھرے انداز میں سر کو جھٹکا۔اسے اس بات کا کوئی خوف نہیں تھا کہ ملازمہ یہ سب کسی کو بتا سکتی تھی۔اگر بتا بھی دیتی تو اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"تم ایک بار پھر جلال سے ملو ، ایک بار پھر پلیز۔۔۔۔۔"وہ اس دن اس سے فون پر کہہ رہی تھی۔
سالار اس بات پر چڑ گیا۔"وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا امامہ ! وہ کتنی بار کہہ چکا ہے۔آخر تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ دوبارہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔اس نے بتایا تھا کہ اس کے ماں باپ اس کی کوئی منگنی وغیرہ کرنا چاہ رہے ہیں۔۔۔۔۔"
"وہ جھوٹ بول رہا ہے۔"امامہ نے بےاختیار اس کی بات کاٹ دی۔"صرف اس لیے کہ میں اس سے دوبارہ کانٹیکٹ نہ کروں ،
مگر وہ بری طرح تجسس کا شکار تھی۔
آخر وہ لوگ کون تھے جو سالار کے کمرے میں تھے اور یہ پیپرز کیسے تھے جن پر امامہ نے سائن کیا تھا۔اس کا ماتھا ٹھٹک رہا تھا اور اسے شبہ ہو رہا تھا کہ ہو نہ ہو وہ دونوں آپس میں شادی کر رہے تھے۔سالار کو پیپرز واپس دیتے ہوئے وہ پوچھے بغیر رہ نہیں سکی تھی۔
"یہ کس چیز کے کاغذ ہیں سالار صاحب؟"اس نے بظاہر سادگی اور معصومیت سے پوچھا۔
"تمہیں اس سے کیا۔۔۔۔۔جیسے بھی پیپرز ہوں۔۔۔۔۔تم اپنے کام سے کام رکھو۔"سالار نے درشتی سے اسے جھڑک دیا۔
"اور ایک بات تم کان کھول کر سن لو ، اس سارے معاملے کے بارے میں اگر تم اپنا منہ بند رکھو گی تو یہ تمہارے لیے بہتر ہو گا بلکہ بہت بہتر ہو گا۔۔۔۔۔"
"مجھے کیا ضرورت ہے جی کسی سے بھی اس بارے میں بات کرنے کی۔میں نے تو ویسے ہی پوچھ لیا۔آپ اطمینان رکھیں صاحب جی ! میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی۔"
حسن نے نکاح کے انتظامات بہت آسانی سے کر لیے تھے۔سالار نے اسے کچھ رقم دی تھی جس سے اس نے تین گواہوں کا انتظام کر لیا تھا۔چوتھے گواہ کے طور پر وہ خود موجود تھا۔نکاح خواہ کو اندازہ تھا کہ اس نکاح میں کوئی غیر معمولی کہانی تھی۔مگر اسے بھاری رقم کے ساتھ اتنی دھمکیاں بھی دے دی گئی تھیں کہ وہ خاموش ہو گیا۔
حسن سہ پہر کے وقت اس نکاح خواں اور تینوں گواہوں کو لے آیا تھا۔وہ سب سالار کے کمرے میں چلے گئے تھے۔وہیں بیٹھ کر نکاح نامہ بھرا گیا تھا۔سالار امامہ کو اس بارے میں پہلے ہی انفارم کر چکا تھا۔مقررہ وقت پر فون پر نکاح خواں نے ان دونوں کا نکاح پڑھا دیا تھا۔سالار نے ملازمہ کے ذریعے امامہ کو پیپرز بھجوا دیے تھے۔امامہ نے پیپرز لیتے ہی برق رفتاری سے ان پر سائن کر کے ملازمہ کو واپس دے دئیے تھے۔ملازمہ ان پیپرز کو واپس سالار کے پاس لے آئی تھی ،
مشورہ مانگنے نہیں۔"سالار نے ناگواری سے کہا۔
"میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔"حسن نے کچھ اُلجھے ہوئے انداز میں کہا۔
"تم نکاح خواں اور کچھ گواہوں کا انتظام کرو ، تاکہ میں اس سے فون پر نکاح کر سکوں۔"سالار نے فوراً ہی کام کی بات کی۔
"مگر تمہیں یہ نکاح کر کے کیا فائدہ ہو گا۔"
"کچھ بھی نہیں ، مگر میں کسی فائدے کے بارے میں سوچ بھی کب رہا ہوں۔"
"دفع کرو سالار ! اس سب کو۔۔۔۔۔تم کیوں کسی دوسرے کے معاملے میں کود رہے ہو اور وہ بھی وسیم کی بہن کے معاملے میں۔۔۔۔۔بہتر۔۔۔۔۔"
سالار نے اس بار درشتی سے اس کی بات کاٹی۔"تم مجھے صرف یہ بتاؤ میری مدد کرو گے یا نہیں۔۔۔۔۔باقی چیزوں کے بارے میں پریشان ہونا تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔"
"ٹھیک ہے ، میں تمہاری مدد کروں گا۔میں مدد کرنے سے انکار نہیں کر رہا ہوں ، مگر تم یہ سوچ لو کہ یہ سب بہت خطرناک ہے۔"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain