اور اس کے دوست کے ساتھ اس کے کمرے میں موجود ہوں۔"
وسیم اس کی بات پر کچھ خفیف سا ہو گیا۔
"یہ آدمی اس قابل نہیں کہ اس کی عیادت کے لئے جایا جائے اور تم اس کے ساتھ میل جول بند کرو۔"
"اچھا ٹھیک ہے میں محتاط رہوں گا۔ اب تم بار بار اس بات کو نہ دہراؤ۔" وسیم نے موضوع گفتگو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ امامہ دانستہ طور پر خاموش ہو گئی مگر سالار اس کے ناپسندیدہ افراد کی لسٹ میں شامل ہو چکا تھا۔
یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ وہ ان دنوں کچھ چھیاں گزارنے اسلام آباد آئی ہوئی تھی ورنہ شاید سالار سے اس کا اتنا قریبی اور اتنا ناپسندیدہ تعارف اور تعلق کبھی پیدا نہ ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک لمحے کے لئے اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے۔سالار کے بارے میں اس کی رائے اور بھی خراب ہو گئی تھی۔ وہ اپنے اس تھپڑ کے لئے معذرت کے ارادے سے وہاں آئی تھی مگر اس وقت اس کا دل چاہا اسے دو چار اور تھپڑ لگا دے۔
تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد فوراً ہی وہ واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور واپس جاتے ہوئے اس نے سالار کے ساتھ علیک سلیک کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔ وہ صرف اس کی ممی کے ساتھ دعا سلام کے بعد سالار کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل آئی تھی اور باہر آ کر اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
"اس طرح کے دوست بنائے ہوئے ہیں تم نے؟" اس نے باہر نکلتے ہی وسیم سے کہا جس نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
"کیوں ، اب کیا ہوا ہے؟"
"اسے دیکھنے تک کی تمیز نہیں ہے۔ اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ میں اس کے دوست کی بہن ہوں اور اس کے دوست کے ساتھ
اس کی چبھتی ہوئی نظروں سے امامہ کو اندازہ ہو گیا کہ اسے یقیناً اس رات ہونے والے واقعات کسی نہ کسی حد تک یاد تھے۔
رسمی علیک سلیک کے بعد اس کی ممی امامہ کا شکریہ ادا کرنے لگیں، جبکہ سالار نے سوپ پیتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ وسیم سے اس کی دوستی کو کئی سال گزر چکے تھے اور اس نے وسیم کے گھر میں امامہ کو بھی کئی بار دیکھا تھا مگر اس نے پہلے کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ اس دن پہلی بار وہ اس پر قدرے تنقیدی انداز میں غور کر رہا تھا۔ اس کے دل میں امامہ کے لئے تشکر یا احسان مندی کے لئے کوئی جذبات نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے اس کے سارے پلان کا بیڑہ غرق ہو گیا تھا۔
امامہ اس کی ممی سے گفتگو میں مصروف تھی مگر وہ وقتاً فوقتاً اپنے اوپر پڑنے والی اس کی نظروں سے بھی واقف تھی۔ زندگی میں پہلی بار اسے کسی کی نظریں اتنی بری لگی تھیں۔
اور فرض کرو اسے سب کچھ یاد ہوا تو۔۔۔۔۔؟"
"تو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔ وہ کون سا ہمارا رشتہ دار ہے کہ اس سے تعلقات خراب ہو جائیں گے یا میل جول میں فرق پڑے گا۔" امامہ نے لاپرواہی سے کہا۔
شاپنگ کرنے کے بعد سالار اسے کلینک لے آیا جہاں سالار زیر علاج تھا۔
وہ دونوں جس وقت اس کمرے میں داخل ہوئے اس وقت وہ سوپ پینے میں مصروف تھا۔
سالار نے وسیم کے ساتھ آنے والی لڑکی کو دیکھا اور فوراً پہچان لیا تھا۔ اگرچہ اس رات اس حالت میں وہ اسے شناخت نہیں کر سکا مگر اس وقت اسے دیکھتے ہی وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اپنی ممی سے یہ بات وہ پہلے ہی جان چکا تھا کہ وسیم کی بہن نے اسے فرسٹ ایڈ دی تھی مگر اسے وہ فرسٹ ایڈ یاد نہیں تھی، بس وہ زناٹے دار تھپڑ یاد تھا جو اس رات اسے پڑا تھا۔ اس لئے امامہ کو دیکھتے ہی وہ سوپ پیتے پیتے رک گیا۔
نہیں مجھ سے کہا تو نہیں مگر ہو سکتا ہے کہ اسے یاد ہو تم نے اچھا نہیں کیا تھا۔"
"اس نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔ ایک تو اپنا ہاتھ کھینچ رہا تھا دوسرے گالیاں دے رہا تھا اوپر سے میرا دوپٹہ بھی کھینچ لیا۔"
"اس نے دوپٹہ نہیں کھینچا تھا، اس کا ہاتھ لگا تھا۔" وسیم نے سالار کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
"جو بھی تھا، اس وقت تو مجھے بہت غصہ آیا تھا مگر بعد میں مجھے بھی افسوس ہوا تھا اور میں نے تو اللہ کا بہت شکر ادا کیا کہ وہ بچ گیا۔ اگر کہیں وہ مر جاتا تو مجھے تو بہت ہی پچھتاوا ہوتا اپنے اس تھپڑ کا۔" امامہ نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"چلو تم آج جا رہی ہو تو معذرت کر لینا۔" وسیم نے مشورہ دیا۔
"کیوں ایکسکیوز کروں، ہو سکتا ہے اسے کچھ یاد ہی نہ ہو پھر میں خواہ مخواہ گڑے مردے اکھاڑوں۔ اسے یاد دلاؤں کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا کیاتھا۔" امامہ نے فوراً کہا۔
"تم مجھ سے اس طرح پوچھ رہی ہو جیسے وہ مجھے سب کچھ بتا کر یہ سب کچھ کرتا ہو گا۔ مجھے کیاپتا وہ کس لئے یہ سب کرتا ہے یا کیوں کرتا ہے۔"
"تمہارا اتنا گہرا دوست ہے، تم پوچھتے کیوں نہیں اس سے؟"
"اتنا گہرا بھی نہیں ہے کہ ایسی باتوں کے بارے میں بھی مجھے بتانے لگے اور ویسے بھی میں کیوں کریدوں، ہو گا اس کا کوئی مسئلہ۔"
"تو پھر بہتر نہیں ہے کہ تم ایسے دستوں سے کچھ فاصلے پر رہو، ایسے لوگوں سے دوستی اچھی نہیں ہوتی۔ اگر کل کو تم نے بھی اس طرح کی حرکتیں شروع کر دیں تو۔۔۔۔۔؟"
"ویسے تم نے اس دن جو حرکت کی تھی وہ اگر اسے یاد رہی تو ہماری دوستی میں خود ہی خاصا فرق آ جائے گا۔" وسیم نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
"میں نہیں سمجھتی کہ ا سے وہ تھپڑ یاد ہو گا۔ وہ صحیح طور پر ہوش میں تو نہیں تھا۔ تم سے ذکر کیا اس نے اس بارے میں؟" امامہ نے پوچھا۔
"تم ان بیچاروں کی کنڈیشن کا اندازہ ہی نہیں کر سکتیں۔ کس منہ سے وہ شکریہ ادا کرنے آئیں اور پھر اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ آپ کے بیٹے نے ایسی حرکت کیوں کی تو وہ دونوں کیا جواب دیں گے۔۔۔۔۔ وہ بیچارے عجیب مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔"
وسیم نے قدرے افسوس کرنے والے انداز میں کہا۔" ویسے اس کے پیرنٹس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا ہے اور امی اور بابا پرسوں جب اس کی خیریت دریافت کرنے گئے تھے تو انہوں نے وہاں بھی ان دونوں کا بہت شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ تو امی اور بابا کی سمجھداری تھی کہ انہوں نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا سالار کے بارے میں، ورنہ تو ادھر بھی خاصی خفت کا سامنا کرنا پڑتا انہیں۔" وسیم نے گاڑی موڑتے ہوئے کہا۔
"مگر آخر تمہارے اس دوست کا مسئلہ کیا ہے، کیوں بیٹھے بٹھائے اس طرح کی احمقانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے؟" امامہ نے پوچھا۔
"تم جو بھی کر رہے تھے، وہ مت کرو، ہم پر کچھ رحم کھاؤ۔" سالار نے ناراضی سے باپ کو دیکھا۔
"تم آخر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ فضول میں بحث کیوں کرتے جا رہے ہو؟" اس بار طیبہ نے اس سے کہا۔
"اچھا ٹھیک ہے، نہیں کروں گا، ایسی کوئی بھی حرکت۔" سالار نے بے زاری سے جیسے ان دونوں سے جان چھڑانے کے لئے کہا۔ سکندر نے ایک گہری سانس لی۔ وہ اس کے وعدے پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ نہ وہ۔۔۔۔۔ نہ ان کی بیوی۔۔۔۔۔ مگر ایسے وعدے لینے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ بچپن سے اپنے اس بیٹے پر فخر کرتے آ رہے تھے، مگر پچھلے کچھ سالوں سے ان کا وہ فخر ختم ہو گیا تھا۔ جتنا پریشان انہیں سالار نے کیا تھا اتنا ان کے باقی بچوں نے مل کے بھی نہیں کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
"اب کیسا ہے تمہارا دوست؟ گئے تھے تم اس کی خیریت دریافت کرنے؟"
کہ ایک بار ہم غافل ہوئے اور وہ پھر وہی حرکت کر گزرا ہے۔" طیبہ نے اپنی آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کو ٹشو کے ساتھ صاف کیا۔ وہ دونوں اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد آئے تھے مگر سالار کے سامنے آ کر دونوں کو چپ لگ گئی تھی۔ ان دونوں ہی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس حالت میں اس سے کیا کہیں۔
سالار کو ان کی دلی اور ذہنی کیفیات کا اچھی طرح اندازہ تھا اور ان کی خاموشی کو وہ غنیمت جان رہا تھا۔ انہوں نے اس دن اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ اگلے دن بھی وہ دونوں خاموش ہی رہے تھے۔
مگر تیسرے دن ان دونوں نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔
"مجھے صرف یہ بتاؤ کہ آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟"سکندر نے اس رات بڑی تحمل مزاجی سے اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا تھا۔" آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔
سگریٹ پھونک ڈالے تھے، مگر اس کے باوجود ان کی بے چینی اور اضطراب میں کمی نہیں ہو پار رہی تھی۔
"میری سمجھ میں نہیں آتا یہ آخر اس طرح کی حرکتیں کیوں کرتا ہے۔ آخر اس پر ہماری نصیحتوں اور ہمارے سمجھانے کا اثر کیوں نہیں ہوا۔" سکندر عثما ن نے دوران سفر کہا۔"میرا تو دماغ پھٹنے لگتا ہے جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔ کیا نہیں کیا میں نے اس کے لئے۔ ہر سہولت، بہترین تعلیم حتیٰ کہ بڑے سے بڑے سائیکاٹرسٹ کو دکھا چکا ہوں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔۔۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ سے کیا غلطی ہو گئی ہے جو مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ جاننے والوں کے درمیان مذاق بن گیا ہوں میں اس کی وجہ سے۔" سکندر عثمان بہت پریشان تھے۔" ہر وقت میرا دم حلق میں اٹکا رہتا ہے کہ پتا نہیں وہ کس وقت کیا کر گزرے۔ اتنی احتیاط برتنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے
ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے بعد ایک بار پھر اسے ڈرپ لگائی۔ سالار نے کچھ بیزاری کے ساتھ یہ کاروائیاں دیکھیں۔ ڈرپ لگانے کے بعد وہ سکندر عثمان اور اس کی بیوی سے باتیں کرنے لگا۔ سالار اس گفتگو کے دوران چھت کو گھورتا رہا پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمرے سے نکل گیا۔
کمرے میں اب بالکل خاموشی تھی۔ سکندر عثمان اور اس کی بیگم اپنا سر پکڑے بیٹھے تھے۔ ان کی تمام کوششوں اور احتیاط کے باوجود یہ سالار سکندر کی خود کشی کی چوتھی کوشش تھی اور اس بار وہ واقعی مرتے مرتے بچا تھا۔ ڈاکٹرزکے مطابق اگر چند منٹو ں کی تاخیر ہوجاتی تو وہ اسے نہیں بچا سکتے تھے۔
سکندر اور ان کی بیوی کو ملازم نے رات کے دو بجے سالار کی خودکشی کی اس کوشش کے بارے میں بتایا تھا اور وہ دونوں میاں بیوی پوری رات سو نہیں سکے تھے۔ سکندر عثمان نے صبح فلائٹ ملنے تک تقریباً ڈیڑھ سو سگریٹ پھونک
اگلی بار جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک پرائیویٹ کلینک میں موجود تھا۔ آنکھیں کھول کر اس نے ایک بار پھر اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔ کمرے میں اس وقت ایک نرس موجود تھی جو اس کے پاس کھڑی ڈرپ کو صحیح کرنے میں مصروف تھی۔ سالار نے اسے مسکراتے دیکھا تھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کا ذہن ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔
دوسری بار اسے کب ہوش آیا، اسے اندازہ نہیں ہوا مگر دوسری بار آنکھیں کھولنے پر اس نے اس کمرے میں کچھ شناسا چہرے دیکھے تھے۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر ممی اس کی طرف بڑھ آئی تھیں۔
"کیسا محسوس کر رہے ہو تم؟" انہوں نے اس پر جھکتے ہوئے بے تابی سے کہا۔
"جسٹ فائن۔" سالار نے دور کھڑے سکندر عثمان کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ اس سے پہلے کہ اس کی ممی کچھ اور کہتیں کمرے میں موجود ایک ڈاکٹر آگے آ گیا تھا وہ اس کی نبض چیک کرنے لگا تھا۔
پڑنے والا تھپڑ یاد آیا۔ وہ چاہنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول سکا۔ وہی نسوانی آواز ایک بار پھر گونجی تھی مگر اس بار وہ اس آواز کو کوئی مفہوم نہیں پہنا سکا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مگر اس کے باوجود اس نے اپنے بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی اس لڑکی اور اس کے ہاتھ میں موجود اپنے بازو کو دیکھا۔
کچھ مشتعل ہو کر اس نے ایک اور جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ہاتھ آزاد نہیں ہوا مگر درد کی ایک تیز لہر نے بے اختیار اسے کراہنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے چند لمحوں کے لئے یہی محسوس ہوا تھا جیسے اس کی جان نکل گئی مگر اگلے ہی لمحے وہ ایک بار پھر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
"تم لوگ دفع ہو۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔ کہاں سے۔۔۔۔۔ آ گئے۔۔۔۔۔ ہو؟" اس نے کچھ مشتعل ہو کر لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔" یہ میرا۔۔۔۔۔ کمرہ ہے۔۔۔۔۔تم لوگوں۔۔۔۔۔ کو اندر۔۔۔۔۔آنے کی جرات کیسے۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔ وسیم تم۔۔۔۔۔دفع۔۔۔۔۔ ہو جاؤ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔جسٹ ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔بلڈی باسٹرڈ۔"
اس نے بلند آواز میں مگر لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔
"اس کے زخم کو دیکھو، میں نے چادر سے خون روکنے کی کوشش کی ہے مگر میں کامیاب نہیں ہوا۔" انہوں نے اس کی کلائی امامہ کو تھماتے ہوئے کہا۔ امامہ نے کرسی پر بیٹھتے ہی اس کی کلائی کے گرد لپٹا ہوا کونہ ہٹایا۔ زخم بہت گہرا اور لمبا تھا۔ ایک نظر ڈالتے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا۔
سالار نے پھر ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر امامہ مضبوطی سے کلائی کے کچھ نیچے سے اس کا بازو پکڑے رہی۔
"وسیم! بس بینڈیج نکال دو۔ یہ زخم بہت گہرا ہے۔ یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ بینڈیج کرنے سے خون رک جائے گا پھر تم لوگ اسے ہاسپٹل لے جاؤ۔"اس نے ایک نظر نیچے کارپٹ پر جذب ہوتے خون پر ڈالی۔ وسیم تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس میں سے بینڈیج نکالنے لگا۔
سالار نے بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اب دھندلاہٹ سی تھی
تمہارا یہ دوست جو ہے نا۔۔۔۔۔" امامہ نے کچھ ناراضی کے عالم میں وسیم کے ساتھ چلتے ہوئے سالار کے بارے میں کچھ کہنا چاہا مگر وسیم نے غصے میں پلٹ کر اس کو جھڑک دیا۔
"فار گاڈ سیک۔ اپنی لعنت ملامت بند نہیں کرسکتیں تم۔ اس کی حالت سیریس ہے اور تم اس کی برائیوں میں مصروف ہو۔"
"ایسی حرکتیں کرنے والوں کے لئے میرے پاس کوئی ہمدردی نہیں ہے۔" وہ دونوں اب سالار کے لاؤنج میں پہنچ چکے تھے۔
چند قدم چلنے کے بعد وسیم ایک موڑ مڑا اور کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ امامہ اس کے پیچھے ہی تھی مگرپھر جیسے کرنٹ کھا کر رک گئی۔ کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے قد آدم کھڑکیوں پر کچھ ماڈلز اور ایکٹریسز کی بڑی بڑی عریاں تصویریں اس طرح لگائی گئی تھیں کہ ایک لمحے کے لئے امامہ کو یوں لگا جیسے وہ تمام لڑکیاں حقیقی طور پر اس کمرے میں موجود ہیں۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
"میں تو اسے دیکھتے ہی بھاگ آیا ہوں، ابھی وہ ہوش میں تھا۔" اس نے مڑ کر امامہ کو بتایا۔ وہ دونوں اب آگے پیچھے سیڑھیاں اتر رہے تھے۔
"تم اسے ہاسپٹل لے جاتے۔" امامہ نے آخری سیڑھی پر پہنچ کر کہا۔
"وہ بھی لے جاؤں گا، پہلے تم اس کی کلائی وغیرہ تو باندھو، خون تو بند ہو۔"
"وسیم! میں اسے کوئی بہت اچھی قسم کی فرسٹ ایڈ نہیں دے سکتی۔ پتا نہیں اس نے کس چیز سے کلائی کاٹی ہے اور زخم کتنا گہرا ہے۔ اس کے اپنے گھر والے کہاں ہیں؟" بات کرتے کرتے امامہ کو خیال آیا۔
"اس کے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے، صرف ملازم ہیں۔ وہ تو کوئی فون کال آئی تھی جس پر ملازم اسے بلانے کے لئے گیا اور جب اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تو پریشان ہوکر دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر اس نے دروازہ توڑ دیا۔" وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اب اپنے گھر سے باہر نکل آئے۔
"امامہ! امامہ!" وسیم دروازہ بجاتے ہوئے بلند آواز میں اس کا نام پکاررہا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟ کیوں چلا رہے ہو؟" دروازہ کھولتے ہی اس نے کچھ حواس باختگی کے عالم میں وسیم سے پوچھا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔
"فرسٹ ایڈ باکس ہے تمہارے پاس؟" وسیم نے اسے دیکھتے ہی فوراً پوچھا۔
"ہاں، کیوں؟" وہ مزید پریشان ہوئی۔
"بس اسے لے کر میرے ساتھ آجاؤ۔" وسیم نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
"کیا ہوا؟" اس کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین کھسکنے لگی۔
"چوچو نے پھر خودکشی کی کوشش کی ہے۔ اپنی کلائی کاٹ لی ہے اس نے۔ ملازم آیا ہوا ہے نیچے اس کا، تم میرے ساتھ چلو۔" امامہ نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
"تمہارے اس دوست کو مینٹل ہاسپٹل میں ہونا چاہئیے جس طرح کی یہ حرکتیں کرتا پھرتا ہے۔" امامہ نے ناگواری سے اپنے بیڈ پر پڑا ہوا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے کہا۔
ریزر بلیڈ کے اوپر موجود ریپر کو اتار کر وہ کچھ دیر لیمپ کی روشنی میں اس کی تیز دھار کو دیکھتا رہا پھر اس نے بلیڈ کے ساتھ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کی رگ کو ایک جھٹکے سے کاٹ دیا۔ اس کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور پھر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی کلائی بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی اور خون کی دھار اب سیدھا کارپٹ پر گر کر اس میں جذب ہورہی تھی۔
اس کا ذہن جیسے کسی گہری کھائی میں جارہا تھا پھر اس نے کچھ دھماکے سنے۔ تاریکی میں جاتا ہوا ذہن ایک بار پھر جھماکے کے ساتھ روشنی میں آگیا۔ شور اب بڑھتا جارہا تھا۔ وہ فوری طور پر شور کی وجہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں کھول دیں مگر وہ کسی چیز کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سورہی تھی جب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کوئی اس کا دروازہ بجا رہا تھا۔
اس وقت رات کے دس بجے تھے جب وہ سینما سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی پاک کارن کا پیکٹ تھا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پاپ کارن کھاتے ہوئے سڑک پر چل رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ تک سڑکیں ناپتے رہنے کے بعد اس نے ایک بہت بڑے بنگلے کی گھنٹی بجائی تھی۔
"صاحب کھانا لگاؤں؟" لاؤنج میں داخل ہونے پر ملازم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔
"نہیں۔" اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
"دودھ؟"
"نہیں۔" وہ رکے بغیر وہاں سے گزرتا چلا گیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوکر اس نے دروازہ بند کرلیا۔ کمرے کی لائٹ آن کرکے وہ کچھ دیر بے مقصد ادھر اُدھر دیکھتا رہا پھر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔ شیونگ کٹ نکال کر اس کے اندر سے ایک ریزر بلیڈ نکال لیا اور اسے لے کر بیڈروم میں آگیا۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ جلا لیا اور بیڈروم کی ٹیوب لائٹ بند کردی۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain