ہوا تو کچھ بھی نہیں غالب بس تھوڑا سا مان ٹوٹا ہے تھوڑے سے لوگ بچھڑے ہیں تھوڑے سے خواب بکھرے ہیں بس تھوڑی سی نیندیں اڑ گٸ ہیں تھوڑی سی خوشیاں چھن گٸ ہیں ہوا تو کچھ بھی نہیں غالب بس اپنا آپ گنوایا ہے آنکھوں کو برسنا سکھایا ہے چاہتوں کا صلہ پایا ہے ہوا تو کچھ بھی نہیں غالب حافظہ