مجھے کیوں عزیز تر ھے یہ دھواں دھواں سا موسم
یہ ہوائے شام ہجراں مجھے راس ھے تو کیوں ھے
میں اجڑ کے بھی ھوں تیرا تو بچھڑ کے بھی ھے میرا
یہ یقین ھے تو کیوں ھے؟ یہ قیاس ھے، تو کیوں ھے
اعتبار ساجد
ﻭھﯽ ﺑﮯ ﺭﺑﻂ ﯾﺎﺭﺍﻧﮯ ، ﻭھﯽ
ﻓﻨﮑﺎﺭﯾﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﺑﮍﺍ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ، ﺗﻌﻠﻖ
ﺩﺍﺭﯾﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ, ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ
ﺑﺪﻟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻋﺎﺩﺕ
ﻧﮧ ﺍﭼﮭﯽ ﺭﻧﺠﺸﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ، ﻧﮧ
ﺍﭼﮭﯽ ﯾﺎﺭﯾﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﯽ..!!
ساتھ رہنا ھو مگر وفا کا سامان نہ ھو
ھائے احساس کا ایسا کبھی فقدان نہ ھو
آج بھی خواب میں کہتی ہیں وہ آنکھیں
ٹھیک ھو جائے گا سب کچھ تو پریشان نہ ھو۔۔۔
جب مُتبادل مِل جائیں تو لوگ تبدیل کر لیتے ہیں
راستہ بھی، مِزاج بھی، رِشتہ بھی، کِتاب بھی اور
! الفاظ بھی
صبر کے لفافوں میں
ھم نے تیرے وعدوں کو
تہہ بہ تہہ کر کے
جوڑ جوڑ رکھا ھے
کوئی حصہ بستر پر
کوئی ٹکڑا ٹیرس پر
ھم نے تیری یادوں کو
توڑ توڑ رکھا ھے
جن صفحوں پہ ذکر ھے
تیرے میرے ملنے کا
ڈائری کے اُن ورقوں کو
موڑ موڑ رکھا ھے
دے رھا ھے دل خود کو ہزار دھوکے
کوئی آئے اور ان دھڑکنوں کو روکے
خود بہ خود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ھوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
ہم بھی غالب کی طرح کوچہ جاناں سے محسنّ
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے
ایسا کیوں ھوتا ھے کہ ہماری آنکھوں میں نمی کسی کو نظر نہیں آتی
مگر ہماری زبان کی تلخی سب کو نظر آ جاتی ھے
بانو قدسیہ
تم خاموشی سُننے کا ہُنر سیکھ لو اب
میری زبان پہ لفظوں کا قحط پڑ گیا ھے
کبھی ہم بھی باعث توقیر ھوا کرتے تھے
تیرے شہر کی جاگیر ھوا کرتے تھے
اتنا اچھا تو نہ تھا نام ہمارا
مگر پھر تیرے ہاتھوں پہ تحریر ھوا کرتے تھے
ارے ہمیں تو گستاخ بنا دیازمانے نے
وارنہ ہم تو اتنے چپ تھے کہ تصویر ھوا کرتے تھے
تو خدا ھے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں نہ وہ تو ھے نہ وہ ماضی ھے فرازؔ
جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں
کہندی تیری تصویر ویکھی سی
تو ہس دا بڑا
سُوہناں ویں
میں کہیا اُو ڈونگیاں سٹاں وجیاں
کچھ عمر نیانی سی
ھون نہیں ہسدے چہرے
اُو تصویر پُرانی سی
بے اعتبار شخص تھا سو وار کر گیا
لیکن میرے شعور کو بیدار کر گیا
کچھ میں نے اشتعال میں شکوے گلے کئے
کچھ وہ شکایتیں سر بازار کر گیا
پہلے وہ میری ذات کی تعمیر میں رہا
پھر مجھ کو اپنے ہاتھ سے مسمار کر گیا
وہ آ ملا تو فاصلے کٹتے چلے گئے
بچھڑا تو راستے میرے دشوار کر گیا
کوئی چہرہ ھوتا ھے مُستند روایت کی طرح
کسی کی آنکھیں! ___ پُختہ دلیل ھوتی ہیں
یہ رنگ و رُوپ کے بھنور میں تیرتی محبتیں
خدا بچاۓ اِن سے! ____ بڑی بخیل ھوتی ہیں!
راز فاش نہ کرو تو ایک بات کہو۔۔
ہم رفتہ رفتہ اُن کے بن مر جائنگے،
اب خساروں کو میں انگلی پہ گنوں ؟ ناممکن
اب تجھے چھوڑ دیا ھے تو سمجھــ چھوڑ دیا
اچھی لڑکی ! گلابی اُردُو نہ بول
ہم تلفظ پہ جان دیتے ہیں
ہم پہ مرتی ھے ایک اُستانی
لیکن ہم سبق پر دھیان دیتے ہیں
میں کہہ رھا ھوں مجھے خود پہ اختیار نہ دے
کہیں مجھے یہ مُسلسل دکھ مار نہ دے
کہا تو دیا طیش میں میرے بغیر عمر گزار
اور اب یہ فکر ! کہیں واقعی گزار نہ دے
یہ کیا بچھڑنا' پلٹنا لگا رکھا ھے دوست
تو مجھ کو ایک اذیت تو بار بار نہ دے
بیٹھے بیٹھے اک دم سے چونکاتی ھے
یاد تری کب دستک دے کر آتی ھے
تتلی کے جیسی ھے میری ھر خواہش
ہاتھ لگانے سے پہلے اڑ جاتی ھے
میرے سجدے راز نہیں رہنے والے
اس کی چوکھٹ ماتھے کو چمکاتی ھے
عشق میں جتنا بہکو اتنا ھی اچھا
یہ گمراھی منزل تک پہنچاتی ھے
پہلی پہلی بار عجب سا لگتا ھے
دھیرے دھیرے عادت سی ھو جاتی ھے
تم اس کو بھی سمجھا کر پچھتاؤ گے
وہ بھی میرے ھی جیسی جذباتی ھے
زبیر علی تابش
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain