حال یہ ہے کہ خواہش پرسش حال بھی نہیں
اس کا خیال بھی نہیں اپنا خیال بھی نہیں
اے شجر حیات شوق ایسی خزاں رسیدگی
پوشش برگ و گل تو کیا جسم پہ چھال بھی نہیں
مجھ میں وہ شخص ہو چکا جس کا کوئی حساب تھا
سود ہے کیا زیاں ہے کیا اس کا سوال بھی نہیں
مست ہیں اپنے حال میں دل زدگان و دلبراں
صلح و سلام تو کجا بحث و جدال بھی نہیں
تو مرا حوصلہ تو دیکھ داد تو دے کہ اب مجھے
شوق کمال بھی نہیں خوف زوال بھی نہیں
خیمہ گاہ نگاہ کو لوٹ لیا گیا ہے کیا
آج افق کے دوش پر گرد کی شال بھی نہیں
اف یہ فضائے احتیاط تا کہیں اڑ نہ جائیں ہم
باد جنوب بھی نہیں باد شمال بھی نہیں
وجہ معاش بے دلاں یاس ہے اب مگر کہاں
اس کے ورود کا گماں فرض محال بھی نہیں
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہ دولت ہو
میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مروت ہو
تم ہو پہلو میں پر قرار نہیں
یعنی ایسا ہے جیسے فرقت ہو
تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو
کس طرح چھوڑ دوں تمہیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو
کس لئے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو
داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain