تیرے بغیریوںبھی دن گزارے ہیں جیتے ہیں خودسے کبھی ہارے ہیں پہلے نظر سے پھردل سےاترے ہم محبت میں مرحلہ وار ہارے ہیں تیری آنکھیں لکھنی تھی کاغذ پر لفظ سبھی آسماں سے اتارے ہیں چاۓ کا کپ مرے ہاتھ سے کیاگرگیا اس نےکہایہ بچھڑنے کےاشارےہیں کئ ستم گربیاہی گئیں اوروں سے کئ ستم رسیدہ ابھی کنوارے ہیں شام کارنگ ہےدوپہر کے چہرے پر حکیم یہ کس نے بال سنوارے ہیں حکیم برھانوی(محمد ابراہیم شہزاد
ﮈھلا ، شام ہوئی ، چاند ستارے نکلے تم نے وعدہ تو کیا، گھر سے نہ پیارے نکلے دوست جتنے تھے، وہ دشمن مرے سارے نکلے دم بھرا میرا ، طرفدار تمہارے نکلے اور پھر اور ہیں ، اوروں کا گلہ کیا کرنا ہم نے پرکھا جو تمہیں ، تم نہ ہمارے نکلے غم و آلام کے ماروں کا بہت تھا چرچا وہ بھی کم بخت ، ترے عشق کے مارے نکلے واۓ قسمت کہ نہ راس آئی محبت ہم کو ہاۓ تقدیر کہ وہ بھی نہ ہمارے نکلے جیتے جی ہم نہ ہلے اپنے ٹھکانے سےنصیر ان کے کوچے سے جنازے ہی ہمارے نکلے