میرے پاس ہی ہے مگر ناجانے کیوں
وہ شخص اب گیا گیا سا لگتا ہے ۔۔۔🌾🌾
آباد مر کے کوچۂ جاناں میں رہ گیا
دی تھی دعا کسی نے کہ جنت میں گھر ملے ۔۔۔۔
اب تیرے شہر سے گزروں تو
گزر جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُن کی محفل سے تصوّر کا تعلّق ہے ہمیں
آنکھ کر لیتے ہیں جب بند، وہیں ہوتے ہیں ۔۔۔
ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی اجنبی کو بهول گیا
کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے
بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بےخبری آتی ہے
اِس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہرِ خموشاں کا خیال
روز ایک ناؤ گلابــوں سے بھری آتی ہے
زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو "تابش"
صبــر آتا ہے، نہ آشــفتہ ســری آتی ہے
انا کہتی ہے التجاء کیا کرنی
وہ محبت ہی کیا جو منتوں سے ملے
شاعر:اظہر عنایتی
ابھی بچھڑا ہے وہ کچھ روز تو یاد آئے گا
نقش روشن ہے مگر نقش ہے دھندلائے گا
گھر سے کس طرح میں نکلوں کہ یہ مدھم سا چراغ
میں نہیں ہوں گا تو تنہائی میں بجھ جائے گا
اب مرے بعد کوئی سر بھی نہیں ہو گا طلوع
اب کسی سمت سے پتھر بھی نہیں آئے گا
میری قسمت تو یہی ہے کہ بھٹکنا ہے مجھے
راستے تو مرے ہم راہ کدھر جائے گا
اپنے ذہنوں میں رچا لیجیے اس دور کا رنگ
کوئی تصویر بنے گی تو یہ کام آئے گا
اتنے دن ہو گئے بچھڑے ہوئے اس سے اظہرؔ
مل بھی جائے گا تو پہچان نہیں پائے گا
دوسرے رنگ نظر ہی نہیں آتے مجھ کو
زرد ایسا ہوں کہ ہر چیز ہری لگتی ہے
ایک ہی عمر ہے دونوں کی مگر دیکھنے میں
میری تنہائی ذرا مجھ سے بڑی لگتی ہے۔
مےنوش
ذات در ذات ہمسفر رہ کر
اجنبی اجنبی کو بهول گیا
یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے
بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بےخبری آتی ہے
اِس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے
کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہرِ خموشاں کا خیال
روز ایک ناؤ گلابــوں سے بھری آتی ہے
زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو "تابش"
صبــر آتا ہے، نہ آشــفتہ ســری آتی ہے
یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے"
یہ شیشے یہ سپنے یہ رشتے یہ دھاگے
کسے کیا خبر ہے کہاں ٹوٹ جائیں
محبت کے دریا میں تنکے وفا کے
نہ جانے یہ کس موڑ پر ڈوب جائیں
عجب دل کی بستی عجب دل کی وادی
ہر اک موڑ موسم نئی خواہشوں کا
لگائے ہیں ہم نے بھی سپنوں کے پودے
مگر کیا بھروسہ یہاں بارشوں کا
مرادوں کی منزل کے سپنوں میں کھوئے
محبت کی راہوں پہ ہم چل پڑے تھے
ذرا دور چل کے جب آنکھیں کھلیں تو
کڑی دھوپ میں ہم اکیلے کھڑے تھے
جنہیں دل سے چاہا جنہیں دل سے پوجا
نظر آرہے ہیں وہی اجنبی سے
روایت ہے شاید یہ صدیوں پرانی
شکایت نہیں ہے کوئی زندگی سے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain